رسائی کے لنکس

دنیا کے بلند ترین جنگی محاذ سیاچن پر بھارتی فوج کو انٹرنیٹ مل گیا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سری نگر: بھارت نے شمالی قراقرم سلسلہ کوہ میں واقع دنیا کے سب سے اونچے جنگی محاذ سیاچن پر انٹرنیٹ سہولیات فراہم کرنا شروع کردی ہیں۔

سطح سمندر سے انیس ہزار چھ سو فٹ کی اونچائی پر واقع سیاچن گلیشئر علاقے میں بھارت نے 13 اپریل 1984 میں کئے گئے فوجی آپریشن ' میگدوت' کے بعد اسےاپنا حصہ قرار دیا تھا ۔تاہم پاکستان نے سیاچن پر دعوے کو ترک نہیں کیا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کی سرحدوں پر نومبر 2003 میں طے پانے والے فائر بندی کے سمجھوتے کی فروری 2021 میں ہوئی تجدید سے پہلے اس علاقے میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان متنازع کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری جو بھارت میں انٹرنیشنل بارڈر یا بین الاقوامی سرحد کہلاتی ہے ہی کی طرح وقتًا فوقتًا جھڑپیں ہوتی تھیں ۔لیکن جیسا کہ خود بھارتی عہدیداروں نے بارہا اعتراف کیا ہے طرفین کے درمیان اس دشمنی سے زیادہ برف سے ڈھکے اس دشوار ترین علاقے میں تعینات بھارتی فوج کو قدرتی آفات اور حادثات سے جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے اگرچہ علاقے میں امن ہے۔

سیاچن کے تمام اہم دروں پر بھارت کا کنٹرول ہے جبکہ پاکستانی فوج اس سے کوئی تین ہزار فٹ نیچے مغرب میں واقع سلٹورو رِج یا سلسلہ کوہ میں تعینات ہے۔


سیاچن میں انٹرنیٹ تک رسائی کیسے حاصل ہوگی؟

بھارتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سیاچن گلیشئر علاقے میں اتوار 18 ستمبر سے شروع کی گئی وائرلیس انٹرنیٹ سروسز زمین کےارد گرد گردش کرنے والے سٹیلائٹس کے ذریعے دستیاب ہونگی۔ انہوں نے کہا کہ یہ زمین پر بچھے کیبل یا ڈی ایس ایل نظام سے جو تاروں کے ذریعے ڈیٹا فراہم کرتا ہے ، اس سے بالکل مختلف ہے۔

ماہرین مواصلات کا کہنا ہے کہ اس طرح کی انٹرنیٹ سہولیات اُن مقامات پر مددگار ثابت ہوتی ہیں جہاں زمین پر انٹرنیٹ دستیاب نہیں یا اس تک رسائی کا معیار کمزور یا ناقابلِ اعتبار ہے۔

سٹیلائٹ کے ذریعے دستیاب انٹرنیٹ آئی ایس پی ہب سے سٹیلائٹ رسیور ڈش کوجو ایک موڈیم کے ساتھ جڑی ہوتی ہےریڈیائی لہریں منتقل ہوتی ہیں۔اس کے لئے تاروں یا زمین پر موجود کسی بنیادی ڈھانچے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ سٹیلائٹ ڈائریکٹ ٹو ہوم یا ڈی ٹی ایچ جیسی نشریاتی سروس کی مانند ہوتی ہے۔


بھارتی فوج مستقبل قریب میں اپنا الگ وقف شدہ سٹیلائٹ حاصل کررہی ہے۔

عہدیداروں نے کہا ہے کہ سیاچن علاقے میں انٹرنیٹ سہولیات بھارت براڈبینڈ نیٹ ورک لمیٹڈ فراہم کرے گا جو حکومتِ بھارت کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔جبکہ فوجی لحاظ سے حساس لداخ خطے بشمول گلوان وادی میں جو گزشتہ دو برسوں کے دوران بھارت اور چین کی افواج کے درمیان ہونے والی مقابلہ آرائیوں کے باعث عالمی سرخیوں میں رہی ہے بھارتی فوج کو چند نجی کمپنیاں بھی انٹرنیٹ سہولیات فراہم کرتی ہیں۔

تاہم بھارتی فوج مستقبل قریب میں اپنا ایک الگ مواصلاتی سٹیلائٹ حاصل کررہی ہے جو مکمل طورپر اس کے لئے وقف رہے گا۔ بھارت کے وزیرِ دفاع راجناتھ سنگھ پہلے ہی اس منصوبے کی منظوری دے چکے ہیں جس کے تحت جی ایس اے ٹی ۔ 7 بی سٹیلائٹ حاصل کیا جائے گا۔ اس وقت بھارتی فوج سٹیلائٹ جی ایس اے ٹی ۔7 اے سے استفادہ کرتی ہے جوبھارتی فضائیہ کے استعمال میں ہے۔ اسی طرح انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن یا اسرو کے سٹیلائٹس سے استفادہ کیا جاتا ہے۔


بھارتی فوج کی چودہویں کور نےجو فائر اینڈ فیوری کور بھی کہلاتی ہے اور جو لداخ خطے میں چین اور پاکستان کے ساتھ ملنے والی سرحدوں پرتعینات ہونےکے علاو ہ سیاچن گلیشئر کی رکھوالی بھی کرتی ہے ایک ٹوئٹ میں کہا "ہمیشہ پار۔ سیاچن سگنلر نے دنیا کے سب سے اونچے جنگی میدان سیاچن گلیشئر میں 19 ہزار 61 فٹ کی بلندی پر سٹیلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس شروع کردی ہے"۔

سیاچن میں انٹرنیٹ کی فراہمی فوجی لحاظ سے اہم

بھارتی فوجی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سیاچن کے علاقے میں اس طرح کے مواصلاتی رابطے کا فقدان تھا جو انٹرنیٹ سہولیات کی فراہمی کے بعد دور ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کی دستیابی کے بعد اس دور دراز اور دشوار ترین پہاڑی علاقے میں تعینات بھارتی فوجی جو ہر روز انتہائی ناسازگار موسمی حالات میں ڈیوٹی انجا م دیتے ہیں نہ صرف اپنےگھر والوں اور دوست احباب سمیت بیرونی دنیا کے ساتھ آسانی کے ساتھ رابطے میں رہیں گے بلکہ اس سہولت کے ذریعے انہیں تفریح کے مواقع و وسائل بھی دستیاب ہونگے جو ان کی ذہنی پریشانیوں کو دور کرنے اور دوسرے نفسیاتی مسائل کو حل کرنےمیں مدد گار ثابت ہوگا۔


عہدیداروں کا کہنا تھا کہ سیاچن گلیشئر میں انٹرنیٹ کی دستیابی کوبھارتی فوج کے نزدیک بڑی اسٹریٹیجک اہمیت بھی حاصل ہے۔ کیونکہ اس سے علاقے میں جہاں پاکستان اور چین جیسے حریف موجود ہیں بھارت کی سرحدوں کی بہتر طور پر نگرانی کرنے اور ملکی مفادات کا دفاع کرنے میں مدد ملے گی بالخصوص اس سے سیاچن گلیشئر میں تعینات بھارتی فوجیوں کے ساتھ بہتر رابطہ رہے گا جو آپریشنل تیاری اور کارکردگی میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔

سیاچن میں ڈیوٹی انجام دینے والے ایک سابق بھارتی فوجی نے ٹوئٹ کرکے کہا "میں وہاں گزارے دنوں کو یاد کرتا ہوں ۔ ان دنوں ایک کمپنی مقام پر ایک سٹیلائٹ فون ہوا کرتا تھا اور ہم دن میں ایک بار اپنے گھر والوں کے ساتھ بات کرسکتے تھے جس پر حد سے زیادہ خرچہ آتا تھا۔ اُن دنوں انٹرنیٹ ایک خواب تھا۔ تاہم انٹرنیٹ اب ایک دو دھاروالا ا ہتھیار بن چکا ہے۔ انتہائی احتیاط برتنے کی ضرورت ہوگی"۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG