دہلی کے لیفٹنینٹ گورنر (ایل جی) وی کے سکسینہ نے بُکر ایوارڈ یافتہ مصنفہ، صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن ارون دھتی رائے کے خلاف منگل کو مقدمہ چلانے کی منظوری دے دی ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اکتوبر 2010 میں نئی دہلی میں منعقدہ ایک کانفرنس میں اشتعال انگیز تقریر کی تھی۔
ایل جی نے کشمیر یونیورسٹی کے ایک سابق پروفیسر شیخ شوکت حسین کے خلاف بھی مقدمہ چلانے کی منظوری دی ہے۔ یہ عدالتی کارروائی تعزیرات ہند کی دفعات 153 اے، 153 بی اور 505 کے تحت چلائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ بادیٔ النظر میں ارون دھتی رائے اور شوکت حسین کے خلاف مذکورہ دفعات کے تحت کارروائی کا معاملہ بنتا ہے۔
ان دفعات کا تعلق نفرت پر مبنی تقریر اور دو فرقوں میں دشمنی پیدا کرنے سے ہے جن کے تحت عدالتی کارروائی کرنے کے لیے حکومت کی اجازت ضروری ہوتی ہے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے ایک کارکن سشیل پنڈت نے 28 اکتوبر 2010 کو ارون دھتی رائے اور شوکت حسین کے خلاف رپورٹ درج کرائی تھی جس کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
ان کا الزام تھا کہ 21 اکتوبر 2010 کو سیاسی قیدیوں کی رہائی سے متعلق کمیٹی کی جانب سے ’آزادی۔ واحد راستہ‘ بینر کے تحت منعقد ہونے والی کانفرنس میں اشتعال انگیز تقریریں کی گئی تھیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کانفرنس میں ’کشمیر کو بھارت سے الگ کرنے پر تبادلۂ خیال ہوا تھا۔‘
رپورٹ میں کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی اور دہلی یونیورسٹی میں ایک پروفیسر سید عبد الرحمان گیلانی کے بھی نام شامل تھے۔ ان دونوں کا انتقال ہو چکا ہے۔
واضح رہے کہ دہلی ایک مکمل ریاست نہیں ہے۔ وہ مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام ایک خطہ ہے۔ ایل جی صدر کے نمائندہ ہیں۔ ان کا عام آدمی پارٹی کی منتخب حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
حکومت نے یہ قدم دہلی کے ایک میڈیا ادارے ’نیوز کلک‘ اور اس سے متعلق صحافیوں کے دفاتر اور رہائش گاہوں پر تین اکتوبر کو دہلی پولیس کے چھاپے کے بعد اٹھایا ہے۔
پولیس کی اس کارروائی کے خلاف اگلے روز پریس کلب آف انڈیا میں صحافیوں کا احتجاجی جلسہ ہوا تھا جس میں ارون دھتی رائے نے بھی شرکت کی تھی۔
اس وقت انھوں نے ایک میڈیا ادارے ’دی وائر‘ سے گفتگو میں صحافیوں کے خلاف پولیس کارروائی کی مذمت کی تھی اور موجودہ صورتِ حال کو ایمرجنسی سے بھی خطرناک بتایا تھا۔
انہوں نے اس اندیشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ ’اگر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر بھارت ایک جمہوری ملک نہیں رہے گا۔‘
سینئر کانگریس رہنما اور اُس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے مقدمہ چلانے کی منظوری دینے پر ایل جی کی مذمت کی اور کہا کہ ’ایل جی (اور ان کے آقاؤں) کی حکومت میں تحمل اور برداشت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘
ان کے بقول ’اگر کوئی تقریر کی جاتی ہے اور اس سے بہت سے لوگ غیر متفق ہوں تب بھی ریاست کو تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں مزید کہا کہ ’میں نے اس سلسلے میں 2010 میں جو کہا تھا اس پر اب بھی قائم ہوں۔ اس وقت ان کے خلاف بغاوت کے قانون کے تحت مقدمہ قائم کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اب ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘
ان کے بقول سپریم کورٹ نے بغاوت کے قانون کی بارہا وضاحت کی ہے۔ ایسی تقریر جس سے برارہ راست تشدد نہ بھڑکے بغاوت نہیں مانی جائے گی۔
حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کے سوشل میڈیا ہیڈ امت مالویہ نے پی چدمبرم کے بیان پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایل جی نے بغاوت کی دفعہ 124 اے کے تحت ارون دھتی رائے کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری نہیں دی ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ یہ (بغاوت کا) معاملہ سپریم کورٹ کے ایک ڈویژن بینچ میں زیرِ سماعت ہے۔
ان کے بقول ارون دھتی رائے کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری تعزیرات ہند کی دفعات 153 اے،153 بی اور 505 کے تحت دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ ارون دھتی رائے کے خلاف نئی دہلی کے تلک مارگ تھانے میں بغاوت کی دفعہ 124 اے، دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے، نفرت پر مبنی تقریر اور دیگر دفعات کے تحت رپورٹ درج کرائی گئی تھی۔ لیکن اس وقت ان کے خلاف عدالتی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اپریل 2010 میں سیکیورٹی فورسز نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں تین مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ سرحد پار سے دراندازی کر رہے تھے۔
رپورٹس کے مطابق ہلاک شدگان کا تعلق بارہ مولہ ضلع کے رفیع آباد سے تھا اور وہ سویلین تھے۔ اس واقعے کے خلاف سرینگر میں احتجاج ہوا تھا۔ بعد میں احتجاج نے عوامی تحریک کی شکل اختیار کر لی تھی۔ 21 اکتوبر 2010 کو دہلی میں منعقد ہونے والی کانفرنس اسی احتجاج کا حصہ تھی جس میں ارون دھتی رائے اور دیگر نے تقاریر کی تھیں۔
'جمہوریت کمزور ہو گی'
پریس کلب آف انڈیا کے سابق صدر اور سینئر صحافی اوماکانت لکھیڑہ کا کہنا ہے کہ جس طرح حکومت کی جانب سے صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے اس سے بھارت میں جمہوریت کمزور ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نیوز کلک پر چھاپے کی کارروائی کے خلاف پریس کلب میں صحافیوں کے احتجاج کے دوران بہت سے صحافیوں نے تقریر کی تھی جن میں ارون دھتی رائے بھی شامل تھیں۔
بقول ان کے آئین نے پریس کی آزادی کی گارنٹی دی ہے اور حکومت اس قسم کے اقدامات سے آئین کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ حکومت ان اقدامات سے پورے ملک میں یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ہمارے خلاف جو بھی بولے گا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
تجزیہ کار اور دہلی یونیورسٹی میں استاد ابھے کمار کا کہنا ہے کہ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نے ارون دھتی رائے کے خلاف مقدمہ چلانے کی جو اجازت دی ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ جو لوگ بھی حکومت پر تنقید کرتے ہیں ان کو پریشان کیا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں بہت سے صحافیوں اور کارکنوں کو جیلوں میں بند کیا گیا ہے۔ نیوز کلک کے صحافیوں کے خلاف دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے لگا دیا گیا ہے۔
ان کے مطابق ارون دھتی رائے کی پوری دنیا میں بڑی عزت ہے اور ان کو پڑھنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ لہٰذا ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری دینے سے حکومت کی اور بدنامی ہو گی۔
خیال رہے کہ بھارت کی حکومت ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی پر پابندیوں کے تاثر کو رد کرتی رہی ہے۔
فورم