برطانوی جریدے کی ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا بھر میں ہر 10 میں سے ایک خاتون کا حمل ضائع ہو جاتا ہے۔
منگل کو برطانوی جریدے دی لینسیٹ میں تین پیپرز کی ایک نئی سیریز شائع کی گئی جس میں حمل ضائع ہونے سے متعلق ڈیٹا مرتب کیا گیا ہے۔
بین الاقوامی محققین کی 31 افراد پر مشتمل ٹیم کے دنیا بھر سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق سالانہ تقریباً دو کروڑ 30 لاکھ حمل ضائع ہوتے ہیں۔
'دی لینسیٹ' میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق حمل ضائع ہونے کے واقعات کی مستند رپورٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی اصل تعداد یقیناً کافی حد تک زیادہ ہے۔
تحقیق کے مطابق دو فی صد خواتین (یعنی ہر 50 میں سے ایک خاتون) کا دو مرتبہ حمل ضائع ہو جاتا ہے جب کہ ایک فی صد سے کم خواتین کو تین یا اس سے زائد بار حمل ضائع ہونے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
محققین کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ حمل ضائع ہونے کو بہتر طور پر تسلیم کرنے کو یقینی بنانے کے لیے ایک نئے نظام جب کہ خواتین کو جسمانی اور ذہنی صحت کے حوالے سے ضروری نگہداشت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ حمل ضائع ہونے سے متعلق بڑے پیمانے پر غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔
مثال کے طور پر متعدد خواتین کا یہ ماننا ہے کہ کوئی بھاری چیز اٹھانے یا حمل سے بچنے کے لیے استعمال کی جانے والی ادویات یا طریقہ کار کی وجہ سے انہیں حمل ضائع ہونے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
متعدد خواتین یہ بھی سوچتی ہیں کہ اسقاطِ حمل سے بچاؤ کے لیے کوئی مؤثر علاج موجود نہیں ہے۔
مصنفین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی غلط فہمیاں نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں اور یہ خواتین اور ان کے شریکِ حیات کی مدد اور علاج کے حصول میں حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔
برطانیہ کی یونی ورسٹی آف وارِک کے پروفیسر، ٹومیز نیشنل سینٹر فار مِس کیرج ریسرچ کے ڈائریکٹر اور تحقیق کے شریک سربراہ مصنف شووان کنبی کا کہنا ہے کہ حمل ضائع ہونے سے متعلق خاموشی نہ صرف خواتین بلکہ طبی ماہرین، پالیسی ساز اداروں اور تحقیق کے شعبوں میں دیکھی گئی ہے۔
دوسری جانب برطانیہ کی برمنگھم یونی ورسٹی سے تحقیق کی شریک سربراہ مصنف ایری کومیراسامی کا کہنا ہے کہ بار بار حمل ضائع ہونا زیادہ تر خواتین کے لیے تباہ کن تجربہ ہے، اس سلسلے میں دماغی صحت پر پڑنے والے اثرات کو بہت کم ہی تسلیم کیا جاتا ہے اور اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔
محققین نے یہ دیکھا ہے کہ زیادہ تر اعداد و شمار امیر ممالک سے سامنے آئے ہیں جب کہ حمل ضائع ہونے سے متعلق خاموشی ہر جگہ پائی گئی ہے۔
انہوں نے سفارش کی کہ صحت کے حکام حمل ضائع ہونے سے متعلق دیکھ بھال کی خدمات کو مستحکم بنانے کے ساتھ ساتھ اس سے بچاؤ کے لیے تحقیق کے شعبے کو بہتر بنائیں۔