حکومت کی طرف سے جاٹ برادری کو سرکاری ملازمتوں میں زیادہ حصہ دینے کے وعدے کے باوجود پیر کو بھارت کی شمالی ریاست ہریانہ میں مظاہرین نے اہم شاہراہیں بند رکھیں۔
مگر فوج کی طرف سے دہلی کو پانی فراہم کرنے والی مونک نہر کا کنٹرول دوبارہ حاصل کیے جانے کے بعد دو کروڑ نفوس پر مشتمل شہر کو پانی کی فراہمی بحال ہو گئی ہے۔
ہریانہ میں جاٹ برادری کی طرف سے فسادات اور لوٹ مار کے دوران کم از کم 15 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ان کے لیے تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں کوٹہ مختص کیا جائے۔
حکومت نے مظاہروں سے نمٹنے کے لیے ہزاروں فوجیوں کو ہریانہ میں تعینات کر دیا ہے جبکہ پیر کو ہریانہ کے کچھ قصبوں میں دوبارہ مظاہرے پھوٹ پڑے۔
حکام کا کہنا ہے کہ مظاہروں سے وسیع پیمانے پر نقصان ہوا ہے جن کے باعث 850 ریل گاڑیوں کو منسوخ اور 500 فیکٹریوں کو بند کرنا پڑا جبکہ 2.9 ارب ڈالر کے کاروبار کا نقصان ہوا۔
اتوار کو بھارت کے وزیر داخلہ نے جاٹ برادری سے مذاکرات کیے مگر مظاہرین نے اب بھی کئی شاہراہوں کی ناکہ بندی کر رکھی ہے جس سے نقل و حمل اور تجارت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
جاٹ برادری کے رہنماؤں نے مظاہرے جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
دریں اثنا ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نے کہا ہے بھارتی فوج نے مونک نہر پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے جو دہلی کے 60 فیصد حصے کو پانی فراہم کرتی ہے جس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ دہلی میں پانی کے بحران پر قابو پایا جا سکے گا۔
وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا کہ فوج نے دہلی کو پانی فراہم کرنے والی مونک نہر کو کھول دیا ہے جس کے چند گھنٹوں بعد پانی دارالحکومت پہنچ جائے گا۔
شمالی بھارت میں آٹھ کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل جاٹ برادری زراعت کے پیشے سے منسلک ہے اور نسل در نسل زمینوں کی بچوں میں تقسیم اور حالیہ سالوں میں خشک سالی کے باعث اسے روزگار کے سلسلے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔