رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں پولیس پر عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملے


فائل
فائل

نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں مقامی پولیس اہلکاروں پر آبائی گھروں میں چھٹیاں گزارنے کے دوران مشتبہ عسکریت پسندوں کی طرف سے کئے جانے والے حملوں میں اضافے کے پیشِ نظر متعلقہ محکمے نے ایک نئی حکمتِ عملی ترتیب دی ہے۔

اِس کے تحت وردی پوش افراد کی تعیناتی کے علاوہ تمام قسم کی سرگرمیوں کو محدود کرکے ایک سخت حفاظتی نظم و ضبط کے تابع بنا دیا گیا ہے۔

نئی حکمتِ عملی کے تحت ایک پولیس اہلکار کو اہم مواقع جیسے قریبی رشتے داروں کی شادی بیاہ، عید اور دوسرے تہواروں اور ناگہانی ضرورت پڑنے پر گھر جانے کی اجازت تو ہوگی۔ لیکن، وہ وہاں صرف دو گھنٹے گزار سکتا ہے اور وہ بھی اعلیٰ افسر کی باضابطہ اجازت ملنے پر ہی۔ مختصر وقت کے لئے چھٹی پر گھر جانے کی اجازت کو متعلقہ پولیس تھانے کو پیشگی اطلاع دینے سے بھی مشروط کر دیا گیا ہے۔

عہدیداروں نے بتایا ہے کہ ایک پولیس اہلکار کو سفر اور آبائی گھر میں قیام کے دوران مناسب سیکیورٹی فراہم کی جائے گی اور اصولی طور پر اس کا یہ دورہ اچانک نوعیت کا ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد پولیس اہلکاروں کو عسکریت پسندوں کے حملوں سے بچانا ہے۔

عید الاضحیٰ کے موقعے پر گھر چھٹی پر جانے والے ایک افسر سمیت کم سے کم تین پولیس اہلکاروں کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے گولی مارکر ہلاک کیا تھا۔ یہ واقعات شورش زدہ وادی کشمیر کے جنوبی اضلاع شوپیان، کلگام اور پلوامہ میں پیش آئے تھے جنہیں اب پولیس محکمے نے انتہائی حساس خطہ قرار دیدیا ہے اور کہا ہے کہ نئے وضح شدہ ہدایت نامے کا اطلاق سب سے زیادہ اسی خطے پر ہوگا۔

عہدیداروں نے کہا ہے کہ جو پولیس اہلکار عسکریت پسندوں کے حملوں کا شکار ہوئے ہیں انہوں نے پہلے سے موجود ایک ایڈوائزری کو نظر انداز کیا تھا۔ اس مشاورتی آگاہی میں جو گزشتہ سال پولیس اہکاروں پر کئے گئے حملوں کے بعد جاری کی گئی تھی ان سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے گھروں کا رخ کرنے سے اجتناب کریں اور اگر ان کے لئے ایسا کرنا ناگزیر بن جائے تو وہ مقامی پولیس تھانے کو اس کی پیشگی اطلاع دیں اور اس سے اپنی حفاظت کا بندوبست بھی کرائیں۔ انہیں ایڈوائزری کے الفاظ میں دہشت گردوں اور سماج اور ملک دشمن عناصر کی سرگرمیوں کے پیشِ نظر احتیاط برتنے اور ان کا ہدف بننے سے بچنے کے لئے ہر ضروری اقدام اٹھانے کے لئے بھی کہا گیا تھا۔

نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں تقریبا" 30 برس پہلے بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لئے شروع کی گئی مسلح جدوجہد کے دوران اب تک ہزاروں پولیس اور دوسرے حفاظتی اہلکار عسکریت پسندوں کے حملوں اور دوسری پُرتشدد سرگرمیوں کے نتیجے میں کام آگئے ہیں۔ انہیں دھمکیاں بھی ملتی رہی ہیں۔ اب ان پر چھٹی پر گھر میں قیام کے دوران کئے جانے والے جان لیوا حملوں میں بھی شدت آگئی ہے۔ پولیس اہلکاروں سے ہتھیار چھیننے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

پولیس اہلکاروں پر تازہ حملے ان کے غیر مسلح ہونے کے دوران ہوئے ہیں۔ پولیس سربراہ شیش پال وید نے انہیں بزدلانہ حرکات قرار دیتے ہوئے کہا "ہم ان مکروہ اور دہشت انگیز حملوں کی مذمت کرتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ ان میں ملوث افراد کو قانون کے سامنے لاکھڑا کرکے ہی دم لیں گے"۔

اس دوران متنازعہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی حد بندی لائین کے گوگل دار اور کیرن علاقوں میں پیش آنے والے دو الگ الگ دھماکوں میں ایک بھارتی فوجی ہلاک اور ایک زخمی ہوئے ہیں۔ عہدیداروں نے بتایا لگتا ہے کہ یہ بارودی سرنگ کے دھماکے تھے اور ان میں عسکریت پسندوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG