بھارت کی وزارت خارجہ نے بتایا کہ اس کے عہدیداروں نے طالبان اور افغانستان کے اندر انسانی امداد میں مصروف بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بات چیت کے لیے کابل کا دورہ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارت کے وفد نے طالبان انتظامیہ کے قائم مقام وزیر خارجہ سے ملاقات کی ہے جس کے بعد افغان وزارت خارجہ نے اس ملاقات کو نئی دہلی کے ساتھ تعلقات میں اچھی شروعات قرار دیا ہے۔
بھارت کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئی دہلی کو طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی جلدی نہیں ہے لیکن وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ سفارتی خلا کو کسی طرح کی رابطہ کاری سے پر کیا جائے اور یہ جانتے ہوئے کہ طالبان ایک سیاسی حقیقت ہیں، ان کے ساتھ رابطہ رکھا جائے۔
بھارت کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے پچھلے دو عشروں میں افغانستان کے اندر بڑی سطح پر ترقیاتی کاموں میں حصہ لیا ہے لیکن گزشتہ سال اگست میں کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد افغانستان کے ساتھ اس کے سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے تھے۔ تاہم اس کے سفارتکاروں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان نمائندوں سے ملاقات کی تھی جہاں ان کا ایک دفتر موجود ہے۔
خبر رساں اداروں اے اور رائٹرز کی رپورٹوں کے مطابق طالبان انتظامیہ کے قائم مقام وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے بھارت کے سینئر عہدیدار جے پی سنگھ کی قیادت میں دورہ کرنے والے وزارت خارجہ کے وفد سے ملاقات کی۔ طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اس ملاقات میں بھارت اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات، دو طرفہ تجارت اور انسانی امداد پر توجہ دی گئی۔
طالبان کی وزارت خارجہ نے بھارت کے عہدیداروں کے اس دورے کو نئی دہلی کے ساتھ تعلقات میں ’ اچھی شروعات‘ قرار دیا ہے۔ ترجمان نے اپنے ایک ٹویٹ میں پاکستان کا نام لیے بغیر یہ بھی کہا کہ طالبان حکومت بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کےذریعے خطے میں دیگر اہم ملکوں کے ساتھ تعلقات میں توازن چاہتی ہے۔
ترجمان نے نائب وزیرخارجہ محمد عباس ستانکزئی کے بیان کا حوالہ بھی ایک ٹویٹ میں دیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں پیش رفت باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کے ساتھ ہو گی اور ان تعلقات پر بھارت کے ساتھ دشمنی رکھنے والے ممالک اثر انداز نہیں ہو ں گے.
دوسری جانب بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم بخشی نے بیان میں کہا ہے کہ نئی دہلی نے أفغانستان کے لیے 20 ہزار ٹن گندم، 13 ٹن ادویات، کووڈ نائنٹین ویکسین کی 5 لاکھ خوراکیں اور سردیوں کے کپڑے افغانستان بھجوائے تھے تاکہ وہاں قلت کو پورا کیا جا سکے.
تاہم جب ان سے سوال کیا گیا کہ آیا بھارت اب طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتا ہے تو ترجمان ارندم بخشی نے کہا کہ وہ اس دورے سے کچھ زیادہ ہی مطلب نکال رہے ہیں۔
بھارت کے عہدیداروں کے دورہ کابل پر بھارت کے تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بھارت کے سینئر صحافی، ہندوستان ٹائمز (اردو ایڈیشن) کے ایڈیٹر پرتاب سام وانشی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے سفارتی حلقوں میں یہ إحساس پایا جاتا ہے کہ افغانستان خطے کے اندر موجود ایک اہم ملک ہے اور اس کے ساتھ مکمل طور پر رابطہ منقطع نہیں کیا جا سکتا باالخصوص جب بھارت نے پچھلے کئی برسوں میں افغانستان کے عوام کے لیے بڑے بڑے منصوبے دیے ہوں اور ترقیاتی کام کر رکھے ہوں۔
’’بھارت نے ان کی پارلیمنٹ بنائی، اسپتال بنائے، تعلیم کے شعبے میں کام کیا تو بھارت نہیں چاہے گا کہ اس کی طرف سے یہ شراکت داری ایک دم سے زائل ہو جائے‘‘
پرتاب سوم وانشی کے مطابق بھارت افغانستان کے اندر ایک سٹیک ہولڈر ہے اور وہ نہیں چاہیے گا کہ خود کو الگ تھلگ کر لے۔
’’ طالبان کی طرف سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح بھارت کی بھی سفارتی ضرورتیں ہیں، اسے مجبوری نہیں کہوں گا، مگروہ دیکھیں گے کہ أفغانستان کے اندر کہاں کہاں کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ بھارت کو چاروں طرف دیکھنا ہے۔ پاکستان کے اندر أفغانستان کے حوالے سے، جو مسلم بھائی چارے کی بات ہوتی ہے تو بھارت کو بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ وہ سٹیک ہولڈر ہے۔ یہ نہیں ہو کہ ہماری آواز کہیں سنائی ہی نہ دے۔ اگر بھارت کسی بھی طرح طالبان کے ساتھ رابطہ بڑھائے رکھے گا تو یہ بھارت کے لیے بہتر ہو گا‘‘
نیلوفر سہرودی نئی دہلی میں مقیم تجزیہ کار ہیں اور مصنفہ ہیں۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان اور افغانستان، بھلے وہاں کسی کی حکومت ہو، ایک دوسرے کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
ان کا کہنا ہے کہ وزارت داخلہ کے عہدیداروں کا کابل جانا ظاہر کرتا ہے کہ بھارت چاہتا ہے کہ افغانستان کی جانب ایک قدم بڑھایا جائے۔ تاہم ان کے بقول چونکہ انڈیا طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا اس لیے ابھی انسانی بنیادوں پر امداد کے حوالے سے ہی رابطہ کاری ہو سکتی ہے۔
’’ بھارت کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں جو سفارتی خلا ہے، اس کو کسی طرح سے پر کیا جائے‘‘۔
یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ افغانستان کے اندر جو حالات ہیں، افغان عوام اس پر نالاں ہیں، اور دنیا بھر سے تنقید آ رہی ہے جیسے خواتین پر عائد مختلف پابندیوں کے حوالے سے۔ بھارت اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھے گا۔
نیلوفر سہروردی کے مطابق بھارت نے افغانستان کے اندر ترقیاتی منصوبوں پر بڑی سرمایہ کاری کی ہے اور اس پر غور کرنا چاہیے کہ ان منصوبوں کو کس طرح برقرار رکھا جا سکتا ہے یا آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
تجزیہ کار نیلوفر سہروردی کا کہنا ہے کہ وزارت خارجہ کے عہدیداروں کے دورے کو افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی شروعات کہا جا سکتا ہے۔
پرتاب سام وانشی کا کہنا ہے کہ جب دنیا یہ محسوس کر ہی ہے کہ طالبان کو افغانستان میں رہنا ہے تو کسی نہ کسی حد تک ان کی سوچ میں تبدیلی تو آئے گی۔
’’ طالبان خود کو پہلے والے طالبان سے مختلف دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کے بارے میں بہت سےملکوں کی سوچ میں بھی کچھ نہ کچھ تبدیلی تو ہو گی ۔ کیونکہ جب انہیں لگے گا کہ طالبان نے أفغانستان میں رہنا ہے۔ تو پھر ان سے بات چیت ہو گی، بات چیت بڑھے گی۔۔۔ ان کے لیے قبولیت بھی ہو گی، کس حد تک ہو گی، یہ الگ بات ہے۔‘‘
اس رپورٹ میں شامل کچھ مواد خبررساں اداروں ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز سے لیا گیا۔