پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کا ترکی کا دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان کی معیشت انتہائی مشکل دور سے گز ررہی ہے۔ ملک میں غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں خاصی کمی آچکی ہے اور آئی ایم ایف کی جانب سے قرضہ ملنے میں بھی تاخیر ہو رہی ہے۔
ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس دورے کا بنیادی مقصد، جو ترک صدر کی دعوت پر ہوا، ترک سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کرنا ہے۔ بعض ترک کمپنیاں ماضی میں بہ وجوہ پاکستان میں اپنا کاروبار بند کرکے واپس چلی گئی تھیں۔ وزیراعظم کے اس دورے کا مقصد ان کو واپسی کے لیے ترغیب دینا اور خاص طور سے آئی ٹی، انرجی اور دفاعی صنعت کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اسی مقصد کےلیے پاکستان کے بہت بڑے کاروباری لوگ بھی وزیر اعظم کے اعلیٰ سطحی وفد میں ان کے ہمراہ ترکی گئے ہیں۔ تاہم اس بارے میں ماہرین کے درمیان اختلاف ہے کہ یہ سب کچھ پاکستان کی موجودہ معاشی صورت حال میں اسے کس حد تک فائدہ پہنچا سکتا ہے۔
ڈاکٹر ایوب مہر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان، ترکی اور ایران کے قائم کردہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ECO. CCI) کے اقتصادی مشیر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان التوا میں پڑے کئی منصوبے ہیں جن کو مکمل کرکے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو سکتا ہے جن میں اس ریلوے ٹریک کی بحالی جو ایران کے راستے میں آتا ہے، دونوں طرف کے کاروباری لوگوں کو ویزا فری انٹری کی حیثیت کا دیا جانا اور اسی قسم کی دوسری سہولیات کی فراہمی شامل ہیں۔
ترکی پاکستان کی کنسٹرکشن کی صنعت میں بھی بہت زیادہ دلچسپی رکھتا ہے اور تعاون کر سکتا ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی ترکی کے دورے پر جانے سے قبل ایک بیان میں یہ کہا تھا کہ ترکی انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ میں پاکستان سے بہت آگے ہے۔
چنانچہ، ماہرین کے بقول ،ایسے کئی شعبے ہیں جن میں ترک سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں اور پاکستانی سرمایہ کار ترکی جاکر سرمایہ کاری کر سکتے ہیں اور اس دورے میں دونوں ملکوں کے سرمایہ کاروں کے درمیان مسلسل ملاقاتوں کے نتیجے میں کارو باری اور سرمایہ کاری سے متعلق معاہدوں کی توقع ہے، جو بتدریج سامنے آئیں گے۔
غلام اصغر ساجد ایک پاکستانی صحافی ہیں جو انقرہ میں مقیم ہیں اور ایک ویب سائٹ چلاتے ہیں، جہاں ییشتر ترکی، پاکستان اور عرب ملکوں کی خبریں اردو میں ترجمہ کرکے یا حاصل کرکے چھاپی جاتی ہیں۔۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس دورے کا فوکس دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو بڑھانا ہے، تاکہ اس وقت ان کے درمیاں تجارت کا جو حجم ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر ہے، اسے اگلے تین سال میں پانچ ارب ڈالر تک پہنچایا جاسکے۔
اس وقت پاکستان کے حالات یہ ہیں کہ ملکی معیشت بد حالی کا شکار ہے سیاسی افراتفری اپنے عروج پر ہے، حکومت کب تک رہ سکتی ہے اور کب نئے انتخاب ہو سکتے ہیں اور ان کے نتیجے میں کس کی حکومت بن سکتی ہے، ان غیر یقین حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بات مناسب ہے کہ حکومت کے ذمہ دار اتنے بڑے بڑے وفود کے ساتھ غیر ملکی دورے کریں۔ ماہرین سمجھتے ہیں کہ ان دوروں کا مقصد اگر ملک میں سرمایہ کاری لانا اور معیشت کو بحال کرنے کی کوشش ہے تو ایسے دوروں میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
ماہرین سمجھتے ہیں کہ دفاعی ساز و سامان کے شعبے میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی بڑی گنجائش ہے۔ وہ کہتے ہیں جولائی دو ہزار اٹھارہ میں پاکستان کی بحریہ نے ترکی کی سرکاری ملکیت والی ڈیفینس فرم ASFATکے ساتھ آر ای ڈی اے کلاس جنگی جہازوں کی خریداری کے معاہدے پر دسخط کئے تھے جو اس شعبے میں تعاون کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس ڈیل کو ترکی کے وزیر دفاع نے ایک معاہدے کے تحت ترکی کی سب سے بڑی دفاعی برآمد قرار دیا تھا۔