بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپنی کابینہ میں بڑی تبدیلیاں کرتے ہوئے صحت، آئی ٹی اور تیل کی وزارتوں کے لیے نئے وزیر مقرر کردیے ہیں۔
کابینہ میں بڑی تبدیلی سے قبل بدھ کو 12 وزیروں نے استعفی دیا تھا جس کے بعد 43 نئے وزرا نے حلف اٹھایا تھا۔ کابینہ میں نئے وزیروں کی شمولیت کے بعد وزیرِ اعظم مودی کی کابینہ میں وزیروں کی تعداد 78 ہوگئی ہے۔
مبصرین کے مطابق کرونا وبا میں کارکردگی پر مودی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا تھا اور کابینہ میں حالیہ تبدیلیوں کو اس تناظر میں بھی دیکھا جارہا ہے۔
نریندر مودی نے 2019 میں دوبارہ منتخب ہونے کے بعد اپنی ٹیم میں پہلی بار بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں۔ لیکن انہوں نے خزانہ، دفاع، داخلہ اور خارجہ امور کی وزارتوں پر فائز اپنی قریبی ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔
کابینہ میں حالیہ تبدیلی میں ڈاکٹر ہرش وردھن کی جگہ 49 سالہ من سکھ لکشمن مانڈویہ کو وزیرِ صحت مقرر کیا گیا ہے اور ان کے نائب وزیر بھی عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق وزیرِ صحت ہرش وردھن اور ان کے نائب کو بھارت میں کرونا کی دوسری لہر کے دوران حکومت پر ہونے والی تنقید کی سیاسی قیمت چکانا پڑی ہے۔
سیاسی مبصرین وزیرِ اعظم مودی کی کابینہ میں تبدیلیوں کے حالیہ فیصلوں کو اور بھی زاویوں سے دیکھتے ہیں۔
کابینہ میں ردوبدل کیوں؟
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار رشید قدوائی کا کہنا تھا کہ مودی کا برانڈ اتنا کارگر یا مضبوط نہیں رہا جتنا 2019 میں تھا اور اس کے بل پر وہ دوسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ کرونا وبا کی دوسری لہر کے دوران خراب کارکردگی کی وجہ سے حالیہ برسوں میں جہاں معاشی مسائل بڑھے ہیں وہیں مودی کی اہلیت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔
مودی نے 2014 اور 2019 کے عام انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کی تھی اور ’اچھے دن آئیں گے‘ ان کا انتخابی نعرہ بھی رہا۔
لیکن رواں برس اپریل اور مئی میں کرونا وبا کی دوسری لہر کے دوران ملک کے دارالحکومت نئی دہلی جیسے بڑے شہروں کے اسپتالوں میں بھی بستروں اور آکسیجن کی قلت نے حکومت کی اہلیت پر کڑے سوالات کھڑے کردیے تھے۔
اس کے علاوہ حکومت کو ملک میں ویکسی نیشن کے عمل میں سست رفتاری اور کرونا سے بچاؤ کی ویکسین کی قلت کے باعث بھی تنقید کا سامنا ہے۔ اب تک صرف پانچ فی صد بھارتی شہریوں کو کرونا کی ویکسین لگائی گئی ہے۔
جین یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر سندیپ شاستری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ میں تبدیلیاں کرونا وبا کی دوسری لہر میں حکومت کے امیج کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش ہے۔
ان کے بقول، ایسے وزیروں کو رخصت کیا گیا ہے جو سیاسی ہوشیاری کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بھارتی معیشت کے حجم میں گزشتہ برس سات فی صد کمی واقع ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر لاکھوں روزگار ختم ہوئے اور بالخصوص غریب اور متوسط طبقات میں مایوسی بڑھی ہے۔ وبا کی دوسری لہر نے رواں برس معیشت کی بہتری کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
تجزیہ کار رشید قدائی کے مطابق، میرے خیال میں بی جے پی نے نئے خطرات کو بھانپ لیا ہے۔
ریاستی اتنخابات کی تیاری
بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ آئندہ برس بھارت کی سات ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں جن کو نظر میں رکھتے ہوئے کابینہ میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
رواں برس اپریل میں مغربی بنگال کے انتخابات میں وزیر اعظم مودی کی بھرپور انتخابی مہم کے باوجود بی جے پی کو مقامی سیاسی جماعت ترنمول کانگریس نے شکست دے دی تھی۔
مغربی بنگال کے انتخابی نتائج نے آئندہ ریاستی انتخابات بالخصوص اُتر پردیش (یوپی) میں بی جے پی کی کامیابی کے امکانات پر شبہات پیدا کردیے تھے۔
واضح رہے کہ یوپی آبادی کے اعتبار سے بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے بھارت پر حکومت کرنے کے لیے اسے اہم تصور کیا جاتا ہے۔
حال ہی میں مرکزی کابینہ میں شامل کیے گئے وزیروں میں درجن سے زائد کا تعلق ان ریاستوں سے ہے جہاں انتخابات کا انعقاد ہونے والا ہے۔
اس کے علاوہ کابینہ میں مختلف ذاتوں اور مقامی برادریوں کو بھی نمائندگی دی گئی ہے جسے بھارتی سیاست میں اہم سمجھا جاتا ہے۔
سندیپ شاستری کے نزدیک سیاسی لین دین کے لیے یہ ضروری تھا۔
اُن کے بقول، جن ریاستوں میں اتنخابات ہونے والے ہیں وہاں سیاسی اتحادیوں کے لیے نچلی ذاتوں، قبائلی اور پس ماندہ برادریوں جیسے گروپس کو سیاسی نمائندگی دینا ضروری تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کابینہ میں نئے چہروں کے ساتھ بھی حکومت کو وبا سے متاثرہ بھارت کو پٹڑی پر واپس لانے میں مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔
کابینہ میں ہونے والی اہم تبدیلیاں
بھارت کے نئے وزیر صحت من سکھ لکشمن مانڈویہ کا تعلق ریاست گجرات سے ہے اور وزارت صحت کا قلمدان سنبھالنے سے قبل وہ کمیکل اور فرٹلائزرز کے جونیئر وزیر تھے۔
مانڈویہ نے 20 سال کی عمر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے یوتھ ونگ میں شمولیت سے اپنا سیاسی کریئر کا آغاز کیا تھا۔ وہ صحت کے ساتھ کیمیکلز اور فرٹیلائزرز کی وزارت کی ذمے داریاں بھی سنبھالیں گے۔
بھارت میں حکومت جب ٹوئٹر، گوگل اور فیس بک جیسی بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نئے قوانین کے نفاذ کی کوشش کررہی ہے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے نمایاں رہنما روی شنکر پرشاد کی جگہ سابق بیوروکریٹ اشون ویشنیو کو یہ ذمے داری دے دی گئی ہے۔
روی شنکر پرساد سوشل میڈیا سے متعلق مودی حکومت کی پالیسیوں کا پُر زور دفاع کرتے تھے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق روی شنکر پرساد کا استعفیٰ کئی حلقوں کے لیے حیرانی کا باعث ہے۔
’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق وہ ٹوئٹر کے ساتھ پیدا ہونے والے تنازع کو درست انداز میں سبنھال نہیں سکے جس کی وجہ سے انہیں وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا۔
وزارتِ ہوابازی کے لیے جویتردتیا سندیا کا انتخاب کیا گیا ہے جو حال ہی میں حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس چھوڑ کر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔
انہیں بھارت کی خسارے میں چلنے والی سرکاری ایئرلائن ’ایئرانڈیا‘ اور کرونا سے متاثرہ ہوابازی کی صنعت سے متعلق چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔
ہردیپ سنگھ پوری کو تیل کی وزارت دی گئی ہے اس سے قبل ان کے پاس سول ایوی ایشن کا قلمدان تھا۔ یہ تبدیلی بھی ایسے وقت میں کی گئی ہے جب تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے حکومت کے لیے عوامی سطح پر برہمی بڑھ رہی ہے۔
اس خبر میں خبررساں ادارے رائٹرز سے لی گئی معلومات بھی شامل ہے