واٹس ایپ کی انتظامیہ نے نئی دہلی کی ایک عدالت میں بھارت کی حکومت کے خلاف درخواست دائر کی ہے جس میں حکومت کو اس اقدام سے روکنے کے لیے کہا گیا ہے جس کے تحت صارفین کی پرائیویسی متاثر ہو سکتی ہے۔
دہلی ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ نیا قانون جو لاگو کیا جا رہا ہے وہ بھارت کے آئین کے تحت پرائیویسی کے حق کو متاثر کرتا ہے۔ اس نئے قانون کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے کہ حکومتی اداروں کی درخواست پر کوئی بھی معلومات ’سب سے پہلے شیئر کرنے والے‘ صارف کی نشان دہی کی جائے گی۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق واٹس ایپ کے بھارت میں 40 کروڑ صارفین ہیں۔
سرکاری حکام کا مؤقف ہے کہ واٹس ایپ کو کوئی بھی معلومات سب سے پہلے تخلیق کرنے والے صارف کی نشان دہی کرنے کا طریقۂ کار وضع کرنا چاہیے۔ بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کا طویل عرصے سے سوشل میڈیا کمپنیوں کے حوالے سے یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ پہلی بار کوئی بھی معلومات شیئر کرنے والوں کی نشان دہی کریں۔ اس طرح کمپنیوں کو یہ نہیں کہا جا رہا کہ وہ صارفین کے میسجز کے اِن-کرپشن (یعنی معلومات مخفی رکھنے کے عمل) کی خلاف ورزی کریں۔
نشریاتی ادارے ’بلوم برگ‘ کی رپورٹ کے مطابق واٹس ایپ کی ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ منگل کو دہلی ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ واٹس ایپ پر کسی پیغام کو شیئر ہونے کے بعد اس کی نشان دہی کے لیے کہا جا رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہر ایک میسج پر نظر رکھی جائے جس سے این ٹو اینڈ اِنکرپشن ختم ہو سکتی ہے۔
واضح رہے کہ انکرپشن کا مطلب صارفین کے میسجز تک سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی رسائی نہ ہونا قرار دیا جاتا ہے۔ یعنی صارفین کے درمیان ہونے والے پیغامات کے تبادلے کو صرف وہ افراد ہی دیکھ سکتے ہیں جنہوں نے پیغام بھیجا اور موصول کیا ہے۔
واٹس ایپ کی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ہر پیغام پر نظر رکھنے سے صارفین کے پرائیویسی کا حق بھی متاثر ہوتا ہے۔
بدھ کو جاری ہونے والے بیان میں انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں سول سوسائٹی اور ماہرین ایسی پابندیوں کی مخالفت کر رہے ہیں جس سے صارفین کی پرائیویسی متاثر ہوتی ہو۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ واٹس ایپ حکومت سے اس حوالے سے رابطے میں رہے گی تاکہ کوئی قابلِ عمل راہ نکالی جا سکے جس سے صارفین بھی محفوظ رہیں۔ جب کہ معلومات کے حصول کے لیے درکار قانونی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکے۔
عدالت میں درخواست دائر ہونے سے بھارت میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت اور ٹیکنالوجی کمپنیوں میں، جن میں فیس بک، گوگل، اور ٹوئٹر شامل ہیں، مخاصمت میں اضافے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ان کمپنیوں کے لیے بھارت کو بڑی مارکیٹ قرار دیا جاتا ہے۔
خدشات میں اضافہ ہونا اس وقت شروع ہوا جب پولیس نے رواں ہفتے بھارت میں ٹوئٹر کے دفاتر کا دورہ کیا۔ ٹوئٹر نے بھارت کے بعض حکام کی ٹوئٹس پر ’گمراہ کن‘ کا لیبل لگا دیا تھا۔
بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کچھ رہنماؤں نے ایک دستاویز کے کچھ حصے ٹوئٹر پر شیئر کیے تھے جن میں حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس کی جانب سے کرونا سے نمٹنے کے لیے حکومتی منصوبوں میں مبینہ طور پر رکاوٹ ڈالنے کا تذکرہ تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کی حکومت نے نہ صرف سوشل میڈیا کمپنیوں کو کہا کہ وہ ’گمراہ کن معلومات‘ کا لیبل ہٹائیں بلکہ ساتھ ہی حکومت پر کرونا وائرس سے نمٹنے کے اقدامات پر تنقیدی سوشل میڈیا پوسٹس ہٹانے کے لیے بھی دباؤ ڈالا گیا۔ واضح رہے کہ وبا کے باعث بھارت میں یومیہ ہزاروں افراد کی اموات ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
- بھارتی وزیرِ اعظم سے استعفے کا مطالبہ کرنے والی پوسٹس غلطی سے ہٹائیں: فیس بک
- بھارت: کیا حکومت کرونا بحران پر ہونے والی تنقید کو دبانا چاہتی ہے؟
- کنگنا رناوت کا ٹوئٹر اکاؤنٹ معطل
- کیا کرونا بحران سے نمٹنے میں ناکامی سے بھارت کی عالمی ساکھ متاثر ہوئی؟
بھارت میں حالیہ عرصے میں متعارف کرائے گئے نئے قوانین کے تحت بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اہم عہدوں پر بھارت کے شہریوں کا تقرر کریں گی۔ کوئی بھی قانونی حکم نامہ جاری ہونے کے 36 گھنٹوں کے اندر اندر شیئر ہونے والے کسی مواد کو اپنے پلیت فارم سے ہٹانا ہوگا۔ اور کمپنیاں ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیں گی جو شکایات کا ازالہ کر سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک خود کار نظام بھی تشکیل دینے کے لیے کہا گیاہے کہ جس کے تحت فحش مواد فوری طور پر پلیٹ فارم سے ڈیلیٹ ہو جائے۔
’رائٹرز‘ کے مطابق واٹس ایپ نے نئی دہلی ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں سپریم کورٹ کے 2017 کے ایک فیصلے کا ذکر کیا ہے جس میں صارفین کی پرائیویسی برقرار رکھنے کے حق میں فیصلہ آیا تھا۔