رسائی کے لنکس

اتراکھنڈ میں ایک سے زائد شادیوں پر پابندی؛ مسلم خواتین کیا سوچتی ہیں؟


بھارتی ریاست اترا کھنڈ میں یونیفارم کوڈ کے نفاذ پر مسلم خواتین کی رائے منقسم ہے۔
بھارتی ریاست اترا کھنڈ میں یونیفارم کوڈ کے نفاذ پر مسلم خواتین کی رائے منقسم ہے۔

سائرہ بانو نے اپنی ریاست اترا کھنڈ میں ایک سے زائد شادیوں پر پابندی کے قانون پر سکھ کا سانس لیا ہے۔ وہ بھارتی سپریم کورٹ میں اپنی درخواست سمیت اسے ایک سال کی کوششوں کا نتیجہ قرار دیتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ شادی اور طلاق سے متعلق اسلام کے قدیم اصولوں کے خلاف ان کی طویل جدوجہد کامیاب ہوئی ہے۔

سائرہ بانو کے شوہر نے دو شادیاں کی تھیں اور انہیں بیک وقت تین بار ’طلاق‘ دے کر ان سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اسلام میں مرد کو ایک وقت میں ایک سے زائد شادیاں کرنے کی اجازت اب ختم ہونی چاہیے۔

تاہم ایک اور مسلم خاتون صدف جعفر مردوں کی ایک سے زائد شادی اور بیک وقت تین طلاقوں پر پابندی کے قوانین پر خوش نہیں ہیں۔ اگرچہ وہ خود رضا مندی حاصل کیے بغیر دوسری شادی کرنے پر اپنے خاوند کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر چکی ہیں۔

صدف جعفر کا کہنا ہے کہ اسلام میں بہت کڑی شرائط کے ساتھ ایک سے زائد شادیوں (تعدد ازواج) کی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم اس سے غلط فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ان کے دو بچے ہیں اور اپنے شوہر سے نان نفقہ حاصل کرنے کے لیے عدالت میں قانونی جنگ لڑ رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مذہبی علما کے بجائے انہوں نے عدالت سے رجوع کرنے کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ انہیں یہاں سے انصاف ملنے کی امید ہے۔

بھارتی ریاست اترا کھنڈ میں یکساں ضابطۂ دیوانی یا یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ پر بھارت کی مسلم خواتین کی آرا میں گہری تقسیم پائی جاتی ہے۔

ان میں سے بہت سی ایسی خواتین بھی یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی صورت میں ایک سے زائد شادیوں پر پابندی کی مخالف کر رہی ہیں جنھیں اپنے خاوند کی دوسری شادی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ان میں سے سائرہ بانو جیسی سماجی کارکنوں کا خیال ہے کہ ملک میں شادی، طلاق، وراثت وغیرہ کے لیے متوازی شرعی قوانین کے بجائے سیکیولر قوانین نافذ ہونے چاہئیں۔

صدف جعفر جیسی مسلم خواتین، سیاست دان اور مذہبی علما اسے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی قوم پرست ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی جانب سے ایک ’سیاسی اسٹنٹ‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔

بھارتی ریاست اترا کھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ بی جے پی کی حکومت والی دیگر ریاستوں میں بھی ایسے ہی اقدامات کیے جائیں گے۔

بھارت میں 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں میں کئی رہنما اس اقدام کی شدت سے مخالفت کر رہے ہیں۔ بھارت دنیا کا تیسرا ملک ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔

اصلاحات یا مداخلت؟

بی جے پی کے رہنماؤں کے مطابق یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ملک کے 1950 کے آئین کے تحت مسلم پرسنل لاز کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے اور اس میں اصلاحات کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

ان کے نزدیک اس کے ذریعے خواتین کو یکساں حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جا رہی ہے۔

بھارت میں 2013 میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق 91 فی صد مسلمان خواتین نے یہ رائے ظاہر کی تھی کہ مرد کو ایک بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

تاہم کئی مسلمان بی جے پی پر ہندو ایجنڈا آگے بڑھانے، مسلمانوں پر امتیازی قوانین تھوپنے اور اسلامی شرعی اصولوں میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہیں۔

بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی سے تعلق رکھنے والی صدف جعفر کا کہنا ہے کہ یونیفارم سول کوڈ نافذ کر کے دراصل مودی حکومت اسلام کا ایک غلط تاثر پیش کرنا چاہتی اور اس کا مقصد مسلمانوں کے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانا ہے۔

بھارت کی سپریم کورٹ نے 2017 میں اپنے ایک فیصلے میں ایک ساتھ تین طلاق دینے کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ لیکن اس حکم نامے میں ایک سے زائد شادیوں سمیت ایسے دیگر عائلی قوانین پر کوئی رائے نہیں دی گئی تھی جنھیں ناقدین خواتین کے یکساں حقوق کے برخلاف قرار دیتے ہیں۔

اترا کھنڈ میں نافذ ہونے والے یونیفارم سول کوڈ کے مطابق مرد و عورت کے لیے شادی کی کم سے کم عمر کا تعین کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی مرد و خواتین، گود لی گئی اولاد، بغیر شادی کے اور سروگیسی سے پیدا ہونے والے بچوں کو وراثت میں یکساں شراکت دار قرار دیا گیا ہے۔

بی جے پی اور حقوقِ نسواں کے کارکن یکساں سول کوڈ کو امتیازی قوانین کا خاتمہ قرار دیتے ہیں تاہم بعض مسلم سیاست دانوں کا مؤقف ہے کہ اس کے نفاذ سے اپنے مذہب و عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے نئے سول کوڈ کو یک طرفہ اور بھارت کی کثیر المذہبی سوسائٹی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔

بورڈ کے عہدے دار ایس کیو آر الیاس کا کہنا ہے کہ ایک سے زائد شادیوں پر پابندی زیادہ معقول فیصلہ نہیں کیوں کہ اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت کے مسلمان مرد بہت کم ہی بیک وقت ایک سے زائد شادیاں کرتے ہیں۔

اپنے دو بچوں کے ساتھ اتر پردیش میں رہنے والی صدف جعفر کا کہنا ہے کہ اسلام عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے کافی ہے۔ ہمیں کسی اور ضابطے کی نہیں بلکہ خواتین کو بروقت انصاف کی فراہمی کی ضرورت ہے۔

اس تحریر کا مواد خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG