پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) نے قومی اسمبلی کی ایک نشست پر کامیابی حاصل کی ہے۔ البتہ ایک نشست والی یہ جماعت سیاسی منظر نامے میں اہمیت اختیار کر گئی ہے۔
ایم ڈبلیو ایم قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ پہنچی ہے جسے خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم سے ایک نشست پر کامیابی ملی ہے۔
آٹھ فروری کو قومی اسمبلی کی 266 میں سے 265 نشستوں پر انتخابات ہوئے تھے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے 264 نشستوں کے عبوری نتائج کا اعلان کیا جا چکا ہے۔
کمیشن نے قومی اسمبلی کی ایک نشست کا نتیجہ روک لیا ہے جب کہ ایک نشست پر امیدوار کے انتقال کی وجہ سے انتخاب ملتوی ہوا تھا۔
الیکشن کمیشن کے اعلان کردہ نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 93 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ اب یہ خبریں زیرِ گردش ہیں کہ یہ امیدوار کسی بھی رجسٹرڈ سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔
کسی بھی رجسٹرڈ سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے سے پی ٹی آئی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔
تحریکِ انصاف کی اسلام آباد میں موجود مرکزی قیادت نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کے دوران تصدیق کی ہے کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کے لیے ایم ڈبلیو ایم میں اپنے آزاد امیدواروں کو شامل کرانے کے آپشن پر غور کر رہی ہے۔
اس سے قبل پی ٹی آئی سربراہ بیرسٹر گوہر علی خان نے 10 فروری کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ پی ٹی آئی کا ایم ڈبلیو ایم سے انتخابی اتحاد ہے۔
ان کے بقول دونوں جماعتوں نے انتخابات کے دوران ایک دوسرے کے امیدواروں کی حمایت بھی کی ہے۔ البتہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ خواتین اور اقلیتوں کی نشستیں حاصل کرنے کے لیے کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنی ہے یا اپنی ہی جماعت کو بحال کرانا ہے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن کہتے ہیں کہ اس بات کا فیصلہ بعد میں ہوگا کہ پی ٹی آئی اراکین وحدت مسلمین یا کسی دوسری جماعت میں شامل ہوں گے یا نہیں۔ ان کے بقول ان کی پہلی ترجیح اپنی جماعت کو برقرار رکھنا ہے اور اس کے لیے عدالتوں کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس نے بھی کہا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کو ان کی جماعت کی ضرورت پڑی، تو وہ غیر مشروط طور پر پارٹی ان کے حوالے کرنے کو تیار ہیں۔
نشریاتی ادارے ’ڈان نیوز‘ سے 11 فروری کو ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے راجہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ ایم ڈبلیو ایم تحریکِ انصاف کی ہی جماعت ہے۔ اگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شمولیت کرنا چاہتے ہیں تو ہم سب کچھ ان کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں۔
راجہ ناصر عباس کے مطابق انہوں نے عام انتخابات سے قبل اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات میں انہیں یقین دہائی کرائی تھی کہ مجلس وحدت مسلمین ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
اہلِ تشیع کی نمائندہ جماعت؟
ایم ڈبلیو ایم اہلِ تشیع فرقے کی نمائندگی کرنے والی نسبتاََ نئی مذہبی سیاسی جماعت ہے جو 2012 میں کراچی اور کوئٹہ میں دہشت گرد حملوں کے خلاف احتجاج کی صورت میں منظرِ عام پر آئی تھی۔
ایم ڈبلیو ایم نے 2013 کے انتخابات میں حصہ لے کر کوئٹہ سے ہزارہ کمیونٹی کے علاقوں پر مشتمل صوبائی اسمبلی کے حلقے سے کامیابی حاصل کی تھی۔ 2018 کے انتخابات میں کراچی اور دیگر شہروں میں پی ٹی آئی اور ایم ڈبلیو ایم کے درمیان اتحاد بھی ہوا تھا۔
آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں ضلع کرم سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 37 سے ایم ڈبلیو ایم کے امیدوار انجینئر حمید حسین پی ٹی آئی کی حمایت سے منتخب ہوئے۔
ایم ڈبلیو ایم کے امیدوار نے 58 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کرم کی نشست سے تین مرتبہ جیتنے والے پیپلز پارٹی کے امیدوار ساجد طوری کو شکست دی ہے جنہوں نے 54 ہزار ووٹ حاصل کیے۔
خیبر پختونخوا میں گزشتہ سال ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کرم کی تحصیل پاڑہ چنار کے منتخب میئر کا تعلق بھی ایم ڈبلیو ایم سے ہے۔
ایم ڈبلیو ایم سے قبل پاکستان کی انتخابی سیاست میں اہلِ تشیع مسلک کی علامہ ساجد نقوی کی جماعت تحریکِ نفاذ فقۂ جعفریہ فعال تھی جو 2002 میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد ’متحدہ مجلس عمل‘ (ایم ایم اے) کا حصہ بھی رہی۔
جنرل پرویز مشرف کے دور کے ابتدائی برسوں میں سپاہِ صحابہ پاکستان (ایس ایس پی) نامی سنی مسلک کی تنظیم کے ساتھ ساتھ تحریکِ نفاذِ فقۂ جعفریہ پر بھی فرقہ واریت کے الزامات کے تحت پاپندی عائد کر دی گئی تھی۔ بعد ازاں اس جماعت سے وابستہ افراد نے ’تحریکِ اسلامی پاکستان‘ کے نام سے الگ جماعت بنا لی تھی۔
اسلام آباد میں قائم انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور کے سربراہ محمد اسرار مدنی کے بقول تحریکِ نفاذِ فقۂ جعفریہ کے مقابلے میں ایم ڈبلیو ایم اہلِ تشیع مسلک ki ایک مؤثر سیاسی قوت بن کر سامنے آئی ہے۔
اسرار مدنی کہتے ہیں کہ تحریکِ نفاذِ فقۂ جعفریہ متحدہ مجلسِ عمل کے ساتھ ساتھ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے فعال اتحاد 'ملی یکجہتی کونسل' کا بھی حصہ رہی ہے۔ لیکن ان کے بقول پاکستان میں فرقے یا مسلک کی بنیاد پر قائم مذہبی جماعتوں کے مقابلے میں پرتشدد رجحانات کی حامل تنظیمیں جنم لیتی رہی ہیں جن کی وجہ سے روایتی مذہبی گروہ کمزور ہوئے ہیں۔
اسرار مدنی کے مطابق جس طرح دیوبندی مکتبۂ فکر کی نمائندہ جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مقابلے میں سپاہِ صحابہ، بریلوی مکبتۂ فکر میں جمعیت علمائے پاکستان کے مقابلے میں سنی تحریک اور پھر تحریکِ لبیک اور اہلحدیث مکتبۂ فکر میں جمعیتِ اہل حدیث کے مقابلے میں جماعتہ الدعوۃ جیسی تنظیمیں ابھریں، وہیں شیعہ مکتبِ فکر میں بھی تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ کے مقابلے میں مجلس وحدتِ مسلمین ایک مؤثر سیاسی قوت بن کر سامنے آئی۔
خیال رہے کہ پاکستان میں شیعہ کمیونٹی کی ایک تیسری جماعت 'تحریکِ بیداریٔ امتِ مصطفیٰ' بھی کافی فعال ہے جس کے سربراہ علامہ جواد نقوی ہیں۔ مگر یہ گروہ پارلیمانی سیاست پر یقین نہیں رکھتا۔
تحریکِ انصاف اور مجلسِ وحدت مسلمین کا اتحاد
پی ٹی آئی اور ایم ڈبلیو ایم کے اتحاد کو بعض مبصرین خاصی اہمیت دیتے ہیں۔
کراچی میں مقیم اسلامی و فقہی امور کے محقق شمس الدین شگری کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور ایم ڈبلیو ایم کے درمیان اتحاد کو پاکستان میں اہلِ تشیع افراد کے ووٹ کے بدلتے ہوئے رجحان کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ان کے بقول پاکستان میں اہلِ تشیع کا ووٹ بینک روایتی طور پر پیپلز پارٹی جب کہ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کو ملتا رہا ہے۔ البتہ گزشتہ کچھ برس سے اس ووٹ بینک کا بڑا حصہ تحریکِ انصاف کی حمایت کر رہا ہے۔
شمس الدین شگری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان کا اہلِ تشیع ووٹ بینک عمران خان کے مغرب مخالف یا خصوصاََ امریکہ مخالف بیانیے سے شدید متاثر لگ رہا ہے۔
ان کے بقول سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان کا اپنی تقاریر میں بار بار ایران کے انقلاب اور امام خمینی کا ذکر کرنے سے بھی یہ ووٹرز پی ٹی آئی کی جانب راغب ہوئے ہیں۔
عام انتخابات سے ایک ہفتے قبل پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے راولپنڈی میں تحریکِ نفاذ فقۂ جعفریہ کے سربراہ علامہ آغا سید حسین مقدسی سے ملاقات کی تھی۔ جس کے بعد علامہ آغا سید نے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
کراچی میں فعال انسانی حقوق کے کارکن اسد کوگل بھی شمس الدین شگری سے اتفاق کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں لگ بھگ 60 سے 70 فی صد اہلِ تشیع ووٹ پی ٹی آئی کی جانب مائل ہوا ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔
ان کے بقول اہلِ تشیع برادری میں یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) ملک کے مختلف علاقوں میں ان کے مخالف رجحانات کی حامل کالعدم تنظیموں سے اتحاد کرتی رہی ہے جس کی وجہ سے پہلے یہ ووٹ پیپلز پارٹی کو ملتا رہا ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں میں یہ ووٹ بینک عمران خان کے امریکہ مخالف بیانیے کی وجہ سے پی ٹی آئی کی جانب راغب ہوا ہے۔
اسد کوگل کا کہنا ہے کہ مغرب اور مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے عمران خان کی خارجہ پالیسی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بھی ایسے معاملات ہیں جن کی وجہ سے اہلِ تشیع ووٹ بینک ٹی آئی کی جانب راغب ہوا ہے۔