بھارت کی سپریم کورٹ نے اس عرضداشت کو خارج کر دیا ہے جس میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھارت کے پارلیمانی حلقے قرار دینے کے لیے حکومت کو ہدایت جاری کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ عدالت نے عرضی گزار پر پچاس ہزار روپے کا جرمانہ بھی عاید کیا۔
خفیہ ایجنسی را کے ایک سابق اہلکار رام کمار یادو نے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی داخل کرکے مرکزی حکومت کو اس سلسلے میں ہدایت دینے کی اپیل کی تھی۔
پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ وہ علاقے بھارت کے ہیں جن پر پاکستان نے قبضہ کر رکھا ہے۔ حکومت نے اس علاقے کو 24 اسمبلی حلقوں میں تقسیم کیا ہے۔ لہٰذا، بھارتی حکومت کو وہاں پارلیمانی سیٹ بنانے کی ہدایت دی جائے۔
یاد رہے کہ پاکستان کشمیر کے اُس علاقے کو آزاد کشمیر اور بھارت کے زیر انتظام حصے کو بھارت مقبوضہ کشمیر کہتا ہے، جبکہ بھارت اُس علاقے کو پاک مقبوضہ کشمیر اور اپنا علاقہ بتاتا ہے۔
چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی والے بینچ نے پٹیشن کو قانونی اعتبار سے ناقابل قبول اور ناقابل مدافعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ عدالت نے رام کمار یادو پر پچاس ہزار روپے کا جرمانہ بھی کیا۔
عدالت نے عرضی گزار سے سخت لہجے میں کہا کہ آپ اس قسم کی درخواست لے کر عدالت میں آئے ہیں؟ اس معاملے میں کسی بھی قسم کی عدالتی مداخلت نہیں کی جا سکتی۔ ہم کوئی بھی حکم جاری نہیں کریں گے۔
ایک ماہر آئین و قانون اور NALSAR یونیورسٹی آف لا حیدرآباد کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفیٰ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پٹیشن میں کوئی دم نہیں تھا۔
ان کے بقول، ’’جب اس علاقے پر ہمارا کوئی کنٹرول ہی نہیں ہے تو وہ بھارت کے پارلیمانی حلقے میں کیسے آسکتا ہے۔ یہ عرضی سیاسی مقاصد کے تحت ڈالی گئی تھی۔ عدالت نے بالکل صحیح فیصلہ دیا ہے‘‘۔
کشمیر امور کے ماہر پروفیسر کمل مترا چنائے نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فیصلے کی حمایت کی اور کہا کہ ’’عدالت کو کشمیر سے متعلق دیگر درخواستوں پر بھی خواہ وہ دستور کی دفعہ 370 اور 35A کو ختم کرنے سے متعلق ہوں، سخت رخ اختیار کرنا چاہیے، تاکہ کشمیری عوام کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے‘‘۔
دریں اثنا، وزیر داخلہ امت شاہ نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں صدر راج کی مدت میں چھ ماہ کی توسیع کا بل راجیہ سبھا میں پیش کیا۔ اسے لوک سبھا نے پہلے ہی منظوری دے دی ہے۔ وہاں جون 2018 سے ہی صدر راج نافذ ہے۔