|
نئی دہلی -- بھارت کی سپریم کورٹ نے کلکتہ ریپ اور قتل کیس میں سماعت پانچ ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش نہ کی جائے۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والے تین رکنی بینچ نے کلکتہ ریپ اور قتل کیس پر جمعرات کو دوبارہ سماعت شروع کی۔ کیس کی تحقیقات کرنے والے ادارے ’سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن‘ (سی بی آئی) نے اپنی اسٹیٹس رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔ اس کیس پر اب پانچ ستمبر کو سماعت ہو گی۔
سپریم کورٹ نے کلکتہ کے آر جی کر میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل میں ایک 31 سالہ ٹرینی خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے معاملے میں از خود نوٹس لیتے ہوئے منگل کو سماعت شروع کی تھی اور سی بی آئی کو ہدایت کی تھی کہ وہ 22 اگست کو جانچ کی اسٹیٹس رپورٹ جمع کرائے۔
سی بی آئی کے مطابق اسے واقعہ کے پانچویں روز کیس کی تحقیقات سپرد کی گئیں اور تب تک ہر چیز تبدیل کر دی گئی تھی۔ اس نے جائے واردات کی تھری ڈی اسکیننگ، دستاویزات اور ویڈیو فوٹیج عدالت میں جمع کرائیں۔
سی بی آئی کے مطابق متعدد بار نقلی کرائم سین دہرایا گیا اور ماہرین کی مدد سے نمونے اکٹھا کیے گئے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر ملزم کی حرکتوں کا تجزیہ کیا گیا۔ سی بی آئی دو لوگوں سے پوچھ تاچھ کر رہی ہے۔ ایک ملزم سے اور دوسرے میڈیکل کالج کے پرنسپل سے۔
سی بی آئی کی جانب سے پیش ہونے والے سولیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے کا ایک پہلو ’ڈیلی ڈائری‘ (ڈی ڈی) ہے۔ کلکتہ پولیس نے ڈائری میں دن کے 10 بج کر 10 منٹ پر کیس درج کیا۔ لیکن جائے واردات کو 11 بج کر 30 منٹ پر محفوظ کیا گیا۔ یہ بات بے حد پریشان کن ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ لاش کی آخری رسومات ادا کرنے کے بعد صبح کے 11 بج کر 45 منٹ پر ایف آئی آر درج کی گئی۔ جب سینئر ڈاکٹرز اور مقتولہ کے اہل خانہ نے اصرار کیا تب ویڈیو گرافی کی گئی۔ اس سے معاملہ مشکوک لگتا ہے۔
تین رکنی بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جے بی پاردی والا اور منوج مشرا بھی ہیں۔ مغربی بنگال حکومت کی جانب سے سینئر وکیل کپل سبل کیس کی پیروی کر رہے ہیں۔
جسٹس جے بی پاردی والا نے ریاستی حکومت اور کلکتہ پولیس کی کارروائیوں میں خامی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ انھوں نے اپنے 30 سالہ کریئر میں ایسا کیس نہیں دیکھا۔
عدالت نے پولیس کی جانب سے اپنے ریکارڈ میں غیر فطری موت درج کرنے کے معاملے میں ہونے والی تاخیر کو انتہائی پریشان کن قرار دیا اور جنرل ڈائری میں جرم کے اندراج اور جائے واردات کے محفوظ بنانے کے درمیان وقت کے فرق پر سوال اٹھایا۔
اس پر کپل سبل نے کہا کہ کیس ڈائری میں ہر چیز موجود ہے اور ڈائری ہائی کورٹ کے حکم پر سی بی آئی کے حوالے کر دی گئی ہے۔ کیس ڈائری میں غیر فطری موت، پوسٹ مارٹم اور آگے کی کارروائی درج ہے۔ لہٰذا اس پر کیسے سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔
عدالت نے کلکتہ پولیس کو ہدایت کی کہ جس پولیس اہل کار نے اس واقعہ کا اندراج کیا تھا وہ اگلی سماعت پر حاضر ہو۔
ملک گیر احتجاج
واضح رہے کہ اس معاملے پر ڈاکٹروں، ان کی تنظیموں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے 11 دنوں سے پورے ملک میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹروں کے ہڑتال پر ہونے کی وجہ سے طبی خدمات بری طرح متاثر ہیں۔
سپریم کورٹ نے احتجاجی ڈاکٹروں کو ہدایت کی کہ وہ ڈیوٹی پر لوٹ جائیں۔ اس نے ’آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘ (ایمس) ناگپور کو یقین دہانی کرائی کہ ڈیوٹی جوائن کرنے کے بعد ڈاکٹروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
’آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘ (ایمس) دہلی کے ریزیڈنٹ ڈاکٹروں کی تنظیم نے چیف جسٹس کی اپیل کے بعد ہڑتال ختم کرکے ڈیوٹی پر واپس آنے کا اعلان کیا ہے۔
قبل ازیں ایمس ناگپور کے ریزیڈنٹ ڈاکٹروں نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ کلکتہ ریپ قتل کیس کے خلاف احتجاج کرنے کی وجہ سے ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق چوں کہ وہ احتجاج کر رہے ہیں اس لیے ان کو غیر حاضر دکھایا جا رہا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ڈاکٹر ڈیوٹی پر ہوں گے تو انھیں غیر حاضر نہیں دکھایا جائے گا اور اگر نہیں ہوں گے تو قانون پر عمل کیا جائے گا۔ انھوں نے ڈاکٹروں سے کہا کہ وہ ڈیوٹی پر جائیں، اگر ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو ہمارے پاس آئیں۔
عدالت نے ریزیڈنٹ ڈاکٹروں کے کام کی صورتِ حال کو انتہائی سخت اور غیر انسانی قرار دیا اور ڈاکٹروں کے تحفظ کے لیے تشکیل کی گئی 10 رکنی ٹاسک فورس سے کہا کہ وہ طبی عملے کے کام کے اوقات کو منظم کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ ڈاکٹرز 36 گھنٹے کام کرتے ہیں یہ غیر انسانی صورتِ حال ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے ڈاکٹروں کے تحفظ کے سلسلے میں منگل کو ایک 10 رکنی ٹاسک فورس تشکیل دی تھی۔ جمعرات کو سماعت کے دوران اس نے کہا کہ ٹاسک فورس تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات کرے۔
سماعت کے دوران تشار مہتہ اور کپل سبل کے درمیان تند و تیز بحث ہوئی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔
معاملے کو سیاسی رنگ دینے سے گریز کی ہدایت
سماعت کے دوران کپل سبل نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے میں بیان بازی روکنے کا قدم اٹھائے۔
اس پر تشار مہتہ نے کہا کہ کوئی بیان بازی نہیں ہو رہی ہے۔ ایک ریاستی وزیر نے بیان دیا ہے کہ اگر ہمارے لیڈر کے خلاف کوئی انگلی اٹھائے گا تو اس کی انگلی قلم کر دی جائے گی۔ ان کے مطابق یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔
اس پر کپل سبل نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر (بی جے پی کے سویندو ادھیکاری) نے بیان دیا ہے کہ گولیاں چل جائیں گی۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ براہ کرم معاملے کو سیاسی رنگ نہ دیں۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جلد از جلد جانچ مکمل ہو اور قانون اپنا کام کرے۔
واضح رہے کہ حکمراں ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) اور اپوزیشن بی جے پی کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ بی جے پی بھی احتجاج میں شامل ہے۔ وہ ٹی ایم سی کو ہدف بنا رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ریاست میں امن و قانون کی صورت حال خراب ہے۔
جب کہ ٹی ایم سی کے رہنما بی جے پی رہنماؤں پر بے بنیاد الزامات لگانے اور ریاستی حکومت کو بدنام کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔
فورم