|
سیاسی تجزیہ کار اور کالم نگار اوریا مقبول جان کو مبینہ مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے جب کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے ان کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ کی بھی منظوری دے دی ہے۔
اوریا مقبول جان کو بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے انہیں جمعرات کو جوڈیشل مجسٹریٹ عمران عابد کی عدالت میں پیش کیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ عدالت نے اوریا مقبول جان کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا۔ عدالت نے تفتیش افسر کو آئندہ سماعت پر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
قبل ازیں اوریا مقبول جان کو ایف آئی اے سائبر کرائم میں درج مقدمے میں عدالت میں پیش کیا گیا۔ ایف آئی اے نے ان کے 14 روزہ ریمانڈ کی استدعا کی تھی جس پر سماعت کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سماعت کے دوران اوریا مقبول جان کے وکیل میاں علی اشفاق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اوریا مقبول جان نے کسی کی توہین نہیں کی۔ ان پر بے بنیاد مقدمہ درج کیا گیا۔ ایف آئی آر کے متن میں جو لکھا گیا ہے وہ تو ہتک عزت کا دعویٰ بنتا ہے۔
لاہور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیاء الرحمٰن کے مطابق ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے ایف آئی آر میں درج تمام الزامات کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ اوریا مقبول جان تفتیش میں تعاون نہیں کر رہے۔ ہمارے پاس ان کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔
اوریا مقبول جان نے خود بھی روسٹرم پر آ کر دلائل دیے کہ میں نے تمام اکاؤنٹس کے پاسورڈ ایف آئی اے کو لکھ کر دے دیے ہیں۔
قبل ازیں بدھ کی صبح اوریا مقبول جان کے وکیل اظہر صدیق نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ان کو لاہور سے گرفتار کیا ہے۔
وکیل اظہر صدیق کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے لاہور گلبرگ کے حکام نے اوریا مقبول جان کو گرفتار کیا جب کہ انہیں گلبرگ کے آفس میں ہی رکھا گیا ہے۔
گرفتاری کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے وکیل نے بتایا کہ اوریا مقبول جان کو سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ کرنے پر حراست میں لیا گیا ہے۔ اس پوسٹ میں اوریا مقبول جان نے مبارک ثانی کیس سے متعلق گفتگو کی تھی۔
انہوں نے ایف آئی اے پر الزام عائد کیا کہ ہمیں ایف آئی آر کی تفصیلات نہیں بتائی جا رہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اوریا مقبول جان کو ممکنہ طور پر آج ہی جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ اس کیس میں ایف آئی اے کو گرفتار کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ اس لیے اس کے خلاف بھرپور دلائل دیں گے۔
مقامی میڈیا کے مطابق اوریا مقبول جان کو لاہور میں ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) فیز 6 میں ان کے گھر سے حراست میں لیا گیا۔ قبل ازیں گزشتہ سال مئی میں بھی دیگر کئی صحافیوں کے ساتھ ساتھ ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا گیا تھا اور انہیں حراست میں لیا گیا تھا۔
انہوں نے حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا خاص طور پر اپنے فیس بک پیجز پر ایسے پروگرام کیے جن میں اسلام آباد میں ایک مذہبی جماعت کے جلسوں اور دھرنوں کا ذکر تھا جو سپریم کورٹ کے مبارک ثانی کیس پر فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
واضح رہے کہ 24 جولائی کو سپریم کورٹ نے مختلف مذہبی تنظیموں کی طرف سے دی گئی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے احمدی کمیونٹی کے فرد مبارک احمد ثانی کی ضمانت پر رہائی کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
اسی مقدمے کو مبارک ثانی کیس کا نام دیا جاتا ہے۔
مختلف مذہبی تنظیموں نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے احتجاج کا اعلان کیا تھا۔
مبارک احمد ثانی پر الزام تھا کہ وہ احمدی کمیونٹی کی جانب سے قرآن کی تفسیر 'تفسیرِ صغیر' کی اشاعت اور تقسیم میں ملوث تھے۔
اس حوالے سے چھ دسمبر 2022 کو پنجاب کے شہر چنیوٹ کے تھانہ چناب نگر میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ مبارک احمد ثانی کو جنوری 2023 میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
مبارک احمد ثانی کی گرفتاری کے بعد ایڈیشنل سیشن جج اور بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کی تھی۔
معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اعلیٰ عدالت نے چھ فروری 2024 کو فیصلہ سناتے ہوئے مبارک احمد ثانی کو پانچ ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض فوراً ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
بعد ازاں نظرِثانی اپیل پر بھی عدالتِ عظمیٰ نے اپنا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔