مجاز اپنی ایک نظم ”نوجوان خاتون سے خطاب“ میں کہتے ہیں کہ:
حجابِ فتنہ پرور اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا
خود اپنے حسن کو پردہ بنا لیتی تو اچھا تھا
تری نیچی نظر خود تیری عصمت کی محافظ ہے
تو اس نشتر کی تیزی آزما لیتی تو اچھا تھا
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
مجاز لکھنوی اگر آج زندہ ہوتے اور نوجوان خواتین کے علاوہ معمر خواتین کو بھی شہریت قانون مخالف مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے دیکھتے، تو شاید اس سے آگے کی کوئی بات کہتے۔
انہوں نے نصف صدی قبل نوجوان خواتین سے جو مطالبہ کیا تھا، بھارت میں آج خواتین نے اس پر لبیک کہا ہے۔ حکومت کی جانب سے منظور کیے جانے والے متنازع قانون کی مخالفت میں وہ سڑکوں پر نکل آئی ہیں اور انہوں نے اپنے آنچل کو پرچم بنا لیا ہے۔
خواتین کو دنیا کی نصف آبادی کہا جاتا ہے۔ جب بھی عوام پر کوئی مصیبت ٹوٹتی ہے تو اس کا شکار مردوں کے ساتھ خواتین بھی ہوتی ہیں۔ موجودہ شہریت ترمیمی قانون بھی مظاہرین کے مطابق کسی مصیبت سے کم نہیں۔
مظاہرین کا ماننا ہے کہ اس قانون سے جہاں مرد متاثر ہوں گے وہیں خواتین بھی اتنی ہی متاثر ہوں گی۔ لہٰذا خواتین بھی مخالفت میں آگے آگے ہیں۔
اس قانون کے خلاف سب سے پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے علم بغاوت بلند کیا اور پھر جامعہ کی طالبات بھی ان کے ساتھ کھڑی ہو گئیں۔
دہلی پولیس نے جب جامعہ کے ایک طالب علم کو گرفتار کرنے اور اس پر لاٹھی چارج کی کوشش کی تو دو طالبات لدیدہ فرسانہ اور عائشہ رینے کو پوری دنیا نے پولیس کے سامنے کھڑے ہوتے دیکھا اور ان دونوں نے اپنے ساتھی کو بچایا۔
اس کے بعد طالبات کا ایک ہجوم سڑکوں پر امڈ پڑا جو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہونے والے مظاہرے کا لازمی حصہ بن گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ طالبات نے دوسری جگہوں پر پہنچ کر بھی مظاہرے کیے۔
ستائیس دسمبر بروز جمعہ، جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی نے نئی دہلی میں یو پی بھون کا گھیراؤ کرنے کا فیصلہ کیا۔ طلبہ کے ساتھ طالبات بھی پہنچیں اور دہلی پولیس نے طلبہ و طالبات کو حراست میں لے لیا۔
جس کے بعد دوسرے شہروں میں بھی طالبات کی بڑی تعداد حکومت مخالف مظاہروں میں شامل ہو گئی۔ دہلی، ممبئی، لکھنؤ، کانپور، حیدر آباد، بنگلور، چنئی اور کلکتہ سمیت ہر جگہ خاتون اسٹوڈنٹس مظاہروں میں پیش پیش نظر آرہی ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبات کو دیکھ کر جے این یو اور دہلی یونیورسٹی کی طالبات بھی میدان میں آگئی ہیں اور وہ بھی مذکورہ قانون کے خلاف مظاہروں میں برابر کی شریک ہیں۔ طالبات تختیاں اٹھائے نعرے لگا رہی ہیں اور گروپ کی شکل میں حبیب جالب اور فیض احمد فیض کی نظمیں گا رہی ہیں۔
کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طالبات کو دیکھ کر گھریلو خواتین بھی مظاہروں میں شامل ہو گئی ہیں۔ اب ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں میں طالبات کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی اور گھریلو خواتین بھی شریک ہو رہی ہیں اور احتجاج درج کرا رہی ہیں۔ ان میں نوجوان عورتوں کے ساتھ ساتھ ادھیڑ عمر اور معمر خواتین بھی ہیں۔
جامعہ کی طالبات میں اکثریت مسلم طالبات کی ہے لیکن غیر مسلم طالبات بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ گویا اس تحریک میں سب ہی شامل ہیں۔
حالانکہ حکومت نے مظاہرین کے بقول "مذہب کی بنیاد پر عوام کو بانٹنے" کی کوشش کی تھی لیکن ان خواتین نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اس پالیسی کی حمایتی نہیں ہیں۔
جامعہ ملیہ میں طالبات کے مورچہ سنبھالنے کے بعد مقامی خواتین نے ایک ہائی وے کو اپنی جدوجہد کا مرکز بنا لیا ہے۔ یہ مرکز ہے شاہین باغ ابوالفضل پارٹ ٹو یعنی سریتا وہار کے نزدیک کالندی کنج روڈ کو متھرا روڈ سے جوڑنے والی شاہراہ۔
پندرہ دسمبر سے کڑکڑاتی سردی میں جہاں درجہ حرارت نقطہ انجماد کے قریب قریب ہے، ترپال کا سائبان کر کے اس شاہراہ پر لوگوں نے اسٹیج بنایا اور دھرنا اور احتجاج شروع کر دیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس دھرنے میں گھریلو خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔
چھ ماہ کے بچے سے لے کر 60، 65 سال کی خواتین تک اس دھرنے میں آ رہی ہیں۔ وہ وہاں دن رات بیٹھی رہتی ہیں اور مذکورہ قانون کے خلاف نعرے لگاتی رہتی ہیں۔
پولیس انہیں ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے اور اسی سلسلے میں مقامی مذہبی شخصیات کا سہارا بھی لیا گیا ہے۔ پولیس نے دو جگہوں کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنا دھرنا وہاں دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ دھرنا اسی مقام پر بدستور جاری ہے۔