واشنگٹن —
انڈونیشیا اپنے ارضیارتی محل و وقوع کے اعتبار سے ہمیشہ سے قدرتی آفات کی زد میں رہا ہے۔ ماہرینِ ارضیات کے مطابق انڈونیشیا بدنامِ زمانہ 'رنگ آف فائر' کے اوپر واقع ہے جو بحرالکاہل کے اس حصے سے گزرنے والی اور ہمیشہ متحرک فالٹ لائنز اور آتش فشانوں کے اس سلسلے کا نام ہے جو ایک قوس کی شکل میں واقع ہیں۔
رواں برس اپریل میں بھی انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا کو 7ء8 شدت کا زلزلہ جھیلنا پڑا تھا جس نے دنیا بھر کے ماہرین کو پریشان کردیا ہے۔
اس زلزلے کے بعد خطے کےباریک بینی سے مطالعے اور جائزے کے بعد ماہرین اور سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ زمین کی وہ پرت جسے اس خطے کی مناسبت سے 'انڈو آسٹریلین ٹیکٹونک پلیٹ' کا نام دیا گیا ہے ، بتدریج دو حصوں میں تقسیم ہورہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زمینی پرت کی اس نوعیت کی ٹوٹ پھوٹ کی ماضی میں کوئی مثال موجود نہیں اور یہی وجہ ہے کہ سماٹرا کو جس زلزلے نے نشانہ بنایا وہ عمودی نہیں بلکہ افقی صورت کا تھا اور اپنی نوعیت کا پہلا زلزلہ تھا۔
زلزلوں کے ماہرین کا کہنا ہے 11 اپریل کو سماٹرا میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں زمین کی بیک وقت چار فالٹ لائنز میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی۔
جیمی مک کائے سنگاپور میں قائم ادارے 'ارتھ آبرویٹری سے منسلک ایک ماہرِ ارضیات ہیں۔ یہ ادارہ زلزلوں، آتش فشانوں اور سونامی جیسی قدرتی آفات کا مطالعہ کرتا ہے۔
جیمی کہتے ہیں اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ 'انڈین آسٹریلین' پلیٹ دو حصوں میں ٹوٹ رہی ہے۔ ان کے بقول سماٹرا میں آنے والا زلزلہ دراصل اس طویل عمل کی ایک یاد دہانی تھا جس کے تحت یہ زمینی پرت دو الگ الگ پرتوں میں تقسیم ہوگی۔
ماہرین کے بقول گو کہ پلیٹ کی تقسیم کا یہ عمل کئی ہزار سال میں مکمل ہوگا لیکن تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس عمل کے دوران میں جو زلزلے آئیں گے وہ مزید زلزلوں کو جنم دینے کا باعث بن سکتے ہیں اور یہ سلسلہ ہفتوں اور بعض اوقات سالوں تک جاری رہ سکتا ہے۔
اس موضوع پر کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق اس بات کا غالب گمان موجود ہے کہ اپریل میں آنے والا زلزلہ دسمبر 2004ء کے اس زلزلے کا نتیجہ ہوسکتا ہے جس نے تاریخ کے بدترین سونامی کو جنم دیا تھا۔
جیمی مک کائے کہتے ہیں کہ زمینی پرت کی تقسیم کے نتیجے میں زمینی پرتوں کے نظام میں بظاہر کسی ابتری کے آثار نظر نہیں آرہے بلکہ سائنس دانوں کو ایک طویل ارضیاتی عمل کے ڈرامائی مشاہدے کا موقع میسر آرہا ہے۔
لیکن زلزلے سے متاثر ہونے والے جزیرے سماٹرا اور انڈونیشیا میں کئی لوگوں کو یقین ہے کہ اس علاقے میں کسی بھی وقت ایک اور بڑا زلزلہ یا سونامی آسکتا ہے۔
ماہرِ ارضیات سورونو انڈونیشیا کے اس ادارے کے سربراہ ہیں جو آتش فشاں پہاڑوں پر نظر رکھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں آتش فشاں پہاڑوں سے لاوے کے اخراج کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کے بقول انڈونیشیا کے نیچے موجود ارضیاتی پرتوں میں آنے والی کوئی بھی تبدیلی ملک کے آتش فشاں پہاڑوں کو براہِ راست متاثر کرسکتی ہے۔ یہی کچھ 2004ء میں بھی ہوا تھا جب سماٹرا میں آنے والے خوف ناک زلزلے کے باعث انڈونیشیا کے تمام آتش فشانوں کے رویے اور ان سے لاوے کے اخراج میں واضح تبدیلی آئی تھی۔
یاد رہے کہ د نیا بھر میں سب سے زیادہ آتش فشاں پہاڑ انڈونیشیا میں ہیں۔ گزشتہ ماہ کے آغاز میں ملک کے مشہور آتش فشاں پہاڑ 'اناک کراکاٹو' میں بھی ایک بار پھر زندگی کے آثار محسوس کیے گئے۔ یہ پہاڑ اس سے قبل 1883ء میں پھٹا تھا جس سے خوف ناک تباہی ہوئی تھی۔
رواں برس اپریل میں بھی انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا کو 7ء8 شدت کا زلزلہ جھیلنا پڑا تھا جس نے دنیا بھر کے ماہرین کو پریشان کردیا ہے۔
اس زلزلے کے بعد خطے کےباریک بینی سے مطالعے اور جائزے کے بعد ماہرین اور سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ زمین کی وہ پرت جسے اس خطے کی مناسبت سے 'انڈو آسٹریلین ٹیکٹونک پلیٹ' کا نام دیا گیا ہے ، بتدریج دو حصوں میں تقسیم ہورہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زمینی پرت کی اس نوعیت کی ٹوٹ پھوٹ کی ماضی میں کوئی مثال موجود نہیں اور یہی وجہ ہے کہ سماٹرا کو جس زلزلے نے نشانہ بنایا وہ عمودی نہیں بلکہ افقی صورت کا تھا اور اپنی نوعیت کا پہلا زلزلہ تھا۔
زلزلوں کے ماہرین کا کہنا ہے 11 اپریل کو سماٹرا میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں زمین کی بیک وقت چار فالٹ لائنز میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی۔
جیمی مک کائے سنگاپور میں قائم ادارے 'ارتھ آبرویٹری سے منسلک ایک ماہرِ ارضیات ہیں۔ یہ ادارہ زلزلوں، آتش فشانوں اور سونامی جیسی قدرتی آفات کا مطالعہ کرتا ہے۔
جیمی کہتے ہیں اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ 'انڈین آسٹریلین' پلیٹ دو حصوں میں ٹوٹ رہی ہے۔ ان کے بقول سماٹرا میں آنے والا زلزلہ دراصل اس طویل عمل کی ایک یاد دہانی تھا جس کے تحت یہ زمینی پرت دو الگ الگ پرتوں میں تقسیم ہوگی۔
ماہرین کے بقول گو کہ پلیٹ کی تقسیم کا یہ عمل کئی ہزار سال میں مکمل ہوگا لیکن تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس عمل کے دوران میں جو زلزلے آئیں گے وہ مزید زلزلوں کو جنم دینے کا باعث بن سکتے ہیں اور یہ سلسلہ ہفتوں اور بعض اوقات سالوں تک جاری رہ سکتا ہے۔
اس موضوع پر کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق اس بات کا غالب گمان موجود ہے کہ اپریل میں آنے والا زلزلہ دسمبر 2004ء کے اس زلزلے کا نتیجہ ہوسکتا ہے جس نے تاریخ کے بدترین سونامی کو جنم دیا تھا۔
جیمی مک کائے کہتے ہیں کہ زمینی پرت کی تقسیم کے نتیجے میں زمینی پرتوں کے نظام میں بظاہر کسی ابتری کے آثار نظر نہیں آرہے بلکہ سائنس دانوں کو ایک طویل ارضیاتی عمل کے ڈرامائی مشاہدے کا موقع میسر آرہا ہے۔
لیکن زلزلے سے متاثر ہونے والے جزیرے سماٹرا اور انڈونیشیا میں کئی لوگوں کو یقین ہے کہ اس علاقے میں کسی بھی وقت ایک اور بڑا زلزلہ یا سونامی آسکتا ہے۔
ماہرِ ارضیات سورونو انڈونیشیا کے اس ادارے کے سربراہ ہیں جو آتش فشاں پہاڑوں پر نظر رکھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں آتش فشاں پہاڑوں سے لاوے کے اخراج کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کے بقول انڈونیشیا کے نیچے موجود ارضیاتی پرتوں میں آنے والی کوئی بھی تبدیلی ملک کے آتش فشاں پہاڑوں کو براہِ راست متاثر کرسکتی ہے۔ یہی کچھ 2004ء میں بھی ہوا تھا جب سماٹرا میں آنے والے خوف ناک زلزلے کے باعث انڈونیشیا کے تمام آتش فشانوں کے رویے اور ان سے لاوے کے اخراج میں واضح تبدیلی آئی تھی۔
یاد رہے کہ د نیا بھر میں سب سے زیادہ آتش فشاں پہاڑ انڈونیشیا میں ہیں۔ گزشتہ ماہ کے آغاز میں ملک کے مشہور آتش فشاں پہاڑ 'اناک کراکاٹو' میں بھی ایک بار پھر زندگی کے آثار محسوس کیے گئے۔ یہ پہاڑ اس سے قبل 1883ء میں پھٹا تھا جس سے خوف ناک تباہی ہوئی تھی۔