انڈونیشیا کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے منشیات سے متعلق جرائم کے مرتکب پانچ غیر ملکیوں سمیت چھ افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا ہے۔
اٹارنی جنرل کے دفتر کے ترجمان ٹونی سپونٹانا نے کہا کہ چار مرد اور ایک انڈونیشین خاتون کی سزائے موت پر ہفتے کی نصف شب کے بعد نساکم بانگن کے جزیرے پر گولی مار کر عملدرآمد کیا گیا جب کہ ایک ویت نامی خاتون کو بھی اسی وقت بوائے لالی کے ضلع میں سزائے موت دی گئی۔
جن مردوں کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا ان کا تعلق برازیل، ملاوی، نائیجیریا اور نیدرلینڈ سے تھا۔
صدر جوکو ودودو نے منشیات کے جرائم سے متعلق سخت گیر روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی رحم کی اپیلوں کو مسترد کر دیا تھا۔ برازیل اور نیدرلینڈ کی حکومتوں نے آخری لمحوں میں (ان کے لیے رحم کی) اپیل کی۔
برازیل اور نیدرلینڈ نے انڈونیشیا سے اپنے سفیروں کو مشاورت کے لیے واپس بلا لیا ہے۔
نیدرلینڈ کے وزیر خارجہ برٹ کواینڈرز نے ان پھانسیوں کو ''ظالمانہ، غیر انسانی اور اسے انسانی وقار اور سالمیت سے انحراف کے مترادف" قرار دیا۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سزائے موت کو "انسانی حقوق کی خلاف ورزی" قرار دیتی ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے لیے ایمنسٹی کے ریسرچ ڈائریکٹر روپرٹ ایبٹ نے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ انڈونیشیا کی نئی انتطامیہ انسانی حقوق کے احترام کے وعدے پر اقتدار میں آئی تھی اور ان کے بقول چھ افراد کی موت کی سزا پرعمل دارآمد "ایک رجعت پسندانہ" اقدام ہے۔
انڈونیشیا نے پانچ سال کے وقفے کے بعد 2013ء میں دوبارہ سزائے موت دینی شروع کی۔ 2014ء میں کسی مجرم کی سزا موت پر عملدرآمد نہیں کیا گیا لیکن انڈونیشیا کی حکومت نے اشارہ دیا ہے کہ اس سال (پھانسیاں) زیادہ دی جائیں گی۔