انسٹاگرام کے ایک اکاؤنٹ پر ایک مسکراتی ہوئی بچی کی تصویر ہے جس نے روایتی انداز میں ہاتھ جوڑ رکھے ہیں۔اس اکاؤنٹ کے 15 ہزار فالوورز ہیں۔
یہ لڑکی پھولوں سے سجے ایک تخت پر بیٹھی ہوئی ہے۔ اس نے گلابی رنگ کا دیدہ زیب جوڑا پہن رکھا ہے۔ اس کے ہیرے کے زیورات بتاتے ہیں کہ اس بچی کا تعلق کسی امیر کبیر خاندان سے ہے۔ تصویر سے معلوم ہوتا ہے جیسے کہانیوں کی کسی شہزادی کی سالگرہ منائی جارہی ہے۔
یہ تصویر 17 جنوری کی ہے لیکن ایک الگ ہی کہانی سناتی ہے کیوں کہ اس پر یہ کیپشن چسپاں ہے ’’انتم ودائی سماروہ‘‘ یعنی آخری رخصتی کی تقریب۔
اس کے اگلے ہی دن دیوانشی سنگھوی نامی اس بچی نے بھارتی ریاست گجرات کے شہر سورت میں قیمتی ملبوسات اور زیورات سے بھرا گھر اور اپنے باپ کی کروڑوں ڈالر کی جائیداد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔
اس دن ہونے والی تقریب کا عنوان تھا ’’دوّیا دکشا دانم‘‘ یعنی الوہی عظمت کے لیے رہبانیت کا آغاز۔ اس تقریب کی تفصیلات دیوانشی سنگھوی کے انسٹا گرام پیج پر بھی موجود ہیں۔ ان تصاویر میں دیوانشی نے کسی قیمتی ملبوس کے بجائے سفید چادروں کا لباس پہنا ہوا ہے اور اس بار بھی اس کی مسکراہٹ برقرار ہے۔
دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ دیوانشی اس بات سے انجان ہے کہ اس زندگی میں آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ تقریب کے بعد دیوانشی وہی کھائے گی جو اسے خیرات میں ملے گا، سفید چادروں میں ملبوس رہے گی، موبائل، ٹی وی یا ایسی کسی ٹیکنالوجی کے استعمال سے دور رہے گی۔ دنیا ترک کرنے کے بعد اسے غسل کرنے اور اپنے خاندان سے کوئی تعلق رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔
کیا یہ دیوانشی کا اپنا فیصلہ ہے؟
دیوانشی کا تعلق جین مت کو ماننے والے خاندان سے ہے۔ اس مذہب کا آغاز ہندوستان سے ہوا اور اسے دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں شمار کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں اس مذہب کے ماننے والوں کی کل تعداد 45 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ جین مت ماننے والوں میں رہبانیت یا دنیا ترک کرنے کا تصور اجنبی نہیں ہے لیکن محض آٹھ سال کی بچی کو راہبہ بنے کا واقعہ شاید ہی کبھی ہوا ہو۔
بچوں کے حقوق کے کارکنوں اور دماغی صحت کے ماہرین نے دیوانشی سے متعلق یہ خبر سامنے آنے کے بعد اس فیصلے کے اسباب اور مضمرات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
چنئی سے تعلق رکھنے والے چائلڈ رائٹس کے ماہر ولوان وی ایس کا کہنا ہے کہ دیوانشی نے یہ فیصلہ اپنے والدین کے حکم پرکیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دعویٰ کیا جارہا ہے یہ دیوانشی کا اپنا فیصلہ ہے لیکن آٹھ سال کی بچی اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتی۔ اگر یہ فیصلہ دیوانشی نے خود بھی کیا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ اس بچی کی عمر بہت کم ہے۔
اعتراضات کے جواب کی تیاری
لیکن دیوانشی کا انسٹا پیج دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا خاندان اس کے راہبہ بننے کے فیصلے پر اٹھنے والے سوالوں اور اعتراض کے بارے میں پہلے ہی سے تیار تھا۔ اس لیے اس پیج پر 25 دسمبر 2022 کو ایک ویڈیو شیئر کی گئی تھی۔
اس ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جین مت میں جو بچے رہبانیت اختیار کرتے ہیں یا مذہبی پیشوا بنتے ہیں انہیں مکمل غذا، خصوصی تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ایسے بچوں کی تعلیم و تربیت بالغ اساتذہ کی نگرانی میں ہوتی ہے۔
اسی طرح اس پیج پر چار جنوری کو پوسٹ ہونے والی ایک ویڈیو میں دیوانشی ملی جلی ہندی اور انگریزی میں بات کررہی ہیں۔ دیوانشی اس ویڈیو میں اپنی والدہ کو ان کی سالگرہ پر لکھے گئے خط کے بارے میں بتا رہی ہیں۔
دیوانشی کہتی ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ یہ والدہ کے ساتھ ان کی آخری سالگرہ ہو گی۔ سو ان کے لیے میرا تحفہ میری دکشا(رہبانیت) ہوگی۔
انسٹا گرام کی ایک اور ویڈیو میں دیوانشی بتا رہی ہیں کہ کس طرح لوگ ان سے بار بار پوچھتے ہیں کہ مجھے دکشا کے بارے میں معلوم بھی ہے؟ وہ کہتی ہیں کہ ان سوالوں سے انھیں یہ ڈر لگنے لگا ہے کہ یہ سارے بڑے مل کر ان کو راہبہ بننے سے روک ہی نہ دیں۔
کولکتہ سے تعلق رکھنے والی بچوں کی نفسیاتی معالج انندیتا چیٹر جی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دیوانشی کی گفتگو اور رویے سے واضح ہے کہ وہ جین راہبوں کی زندگی میں آنے والی مشکلات سے واقف نہیں ہیں۔ اس لیے جب اس بچی کو سختیوں اور کھٹن حالات کا سامنا ہوگا تو اس کے دل و دماغ پر بہت برا اثر پڑے گا۔
چیٹرجی کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ بہت پیچیدہ ہے اور ہر وقت تبدیلی سے گزرتا رہتا ہے۔ کم عمری میں نن یا راہب بننے والے کئی بچے سوچنے سمجھنے کے قابل ہونے پر اپنا فیصلہ بدل دیتے ہیں۔
کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟
ولوان وی ایس کا کہنا ہے کہ بھارت میں بچوں کے تحفظ کے لیے مناسب قوانین نہ ہونےکی وجہ سے دیوانشی کے معاملے میں ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔
وہ اس سلسلے میں بچوں کے حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ کے چارٹر (یو این سی آر سی) کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس چارٹر میں تمام اقدامات واضح کردیے گئے ہیں۔
ان کے مطابق چارٹر کے اعتبار سے آٹھ سالہ بچی کے اس فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور اس اقدام میں اس کی مدد کرنے والے بالغ افراد کی قانونی جوابدہی ہونی چاہیے۔
ولوان کے مطابق بھارت میں ڈسٹرک چائلڈ پروٹیکشن یونٹس، چائلڈ ویلفیئرز کمیٹی اور نیشنل کمیشن فور چائلد رائٹس جیسے اداروں نے دیوانشی کے معاملے میں کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔
خیال رہے کہ بھارت میں مختلف سطحوں پر بچوں کے حقوق کا تحفظ مذکورہ اداروں کی ذمے داری ہے۔
قربانی کے 11 درجے
جین مت کی ایک پروفیسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر دیوانشی کے فیصلے سے متعلق مذہبی تصورات کی وضاحت کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جین مت کی مذہبی کتب کے مطابق آٹھ سال کا بچہ دماغی طور پر اپنے فیصلوں کے قابل ہوجاتا ہے۔ اس عمر کے بچوں کو ’آتما نبھوتی‘ یا اپنی ذات کا شعور ہوجاتا ہے۔یعنی اس عمر کے بچے اپنی ذات کی دوسروں سے الگ شناخت کا ادراک حاصل کرلیتے ہیں۔
پروفیسر کے مطابق یہ شعور حاصل ہونے کے بعد قربانی کے 11 مدارج آتے ہیں۔ ان میں سے گیارہویں درجے پر پہنچ کر کوئی بھی انسان اپنے خاندان اور خونی رشتوں کو چھوڑسکتا ہے۔
دیوانشی سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ اس عمر میں اگر وہ دنیا تیاگنا چاہتی ہیں تو اس کے لیے انہیں اپنے والدین اور گرو کی اجازت درکار ہوگی جو بچی میں تیاگ یا قربانی کی اہلیت کو جانچ کر یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ وہ اس قابل ہیں یا نہیں۔
ماہرِ نفسیات انندیتا چیٹر جی کا کہنا ہے کہ دیوانشی کے فیصلے سے اس کے خاندان کو تنقید کا سامنا کرنے کے ساتھ شہرت بھی مل جائے گی۔ لیکن یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس بچی کی آخری منزل کیا ہوگی۔
یہ تحریر وائس آف امریکہ کے لیے سارہ عزیز کی رپورٹ سے ماخوذ ہے۔