آنسو، غصہ، اور تکلیف ، ایسی علامات ہیں ، جس کا اظہار عام طور پر بچے ٹیکہ لگنے سے پہلے سرنج کو دیکھ کر کرتے ہیں ۔ سادہ الفاظ میں جب بات سوئی لگنے کی ہو تو بہت سے بچے پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن اب جبکہ ویکسینیشن زیادہ عام بات ہو گئی ہے، ماہرین کے لئے انجکشن سے متعلق خوف اور درد کو کم کرنے کے طریقے تلاش کرنا ایجنڈے میں سرفہرست ہو گیا ہے۔
جریدے ’سائنس ڈیلی‘ میں شائع ہونے والی یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا کی ایک نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جب نرسیں ویکسینیشن کے عمل میں بچوں کی مدد کرنے میں اضافی وقت صرف کرتی ہیں تو سوئی لگانے کے خوف کو کم کیا جا سکتا ہے۔
آْٹھ سے بارہ سال کی عمر کے بچوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے، ابتدائی مطالعہ سے معلوم ہوا ہے کہ نرس کی زیرقیادت دو نئے طریقہ کار بچوں میں سوئی کے خوف کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں ۔
توجہ بٹانا
اس طریقہ کار میں بچے کی توجہ اور توقعات سوئی سے ہٹا دی جاتی ہیں۔
مثبت یادداشت کی اصلاح
اس طریقے کی مدد سے سوئیوں کی تکلیف اور تکلیف کے بارے میں بچے کی مبالغہ آرائی کو سوئی لگانے کے عمل کے مثبت پہلو سے دور کیا جاتا ہے تاکہ واقعہ کی زیادہ حقیقت پسندانہ یادوں کو شکل دی جائے۔
اس تحقیق کی مرکزی محقق، یونی ایس اے کی ڈاکٹر فیلیسیٹی بریتھویٹ کا کہنا ہے کہ بچوں کاحفاظتی ٹیکوں کے بارے میں خوف اور پریشانی کو کم کرنے میں مدد کرنا موجودہ کوویڈ وبا کے پیش نظر تحقیق کی ایک اہم ترجیح ہے۔
ڈاکٹر بریتھویٹ کا کہنا ہے کہ "بہت سے بچوں کے لیے، سوئی کے عمل سے گزرنا تکلیف دہ اور پریشان کن ہو سکتا ہے،بچپن میں ویکسینیشن کے منفی تجربات اکثر طبی اجتناب اور جوانی میں ویکسین سے ہچکچاہٹ کا باعث بن سکتے ہیں، جس کے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں ، خاص طور پرجب بات متعدی امراض کے پھیلنے کی ہو"۔
" ڈاکٹر بریتھویٹ مزید کہتی ہیں کہ "بچوں کا ٹیکوں سے متعلق ان کے خوف پر قابو پانے میں مدد دینے کے لیے طریقہ کار میں زیادہ وقت لگانے سےبہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ آئندہ نسل کے لیے صحت کے بہتر نتائج فراہم کیے جا سکیں گے"۔
اس مطالعے میں 41 بچے اور ان کے والدین شامل تھے، جن میں شرکاء کو چار گروپوں میں سے ایک کے لیے مختص کیا گیا تھا ۔ ان میں معمول کی دیکھ بھال، منقسم توجہ، مثبت یادداشت کی اصلاح، یا اخری دو طریقہ کار کا مجموعہ شامل ہیں ۔
منقسم توجہ کے طریقہ کار میں ایک دو منٹ کے لئے توجہ بٹائی گئی ۔جس دوران ایک نرس نے بے ترتیب بچے کے بازو کو ویکسینیشن کی جگہ کے اوپر اور نیچے تھپتھپایا، جس کے ساتھ بچہ اپنی توجہ یہ اندازہ لگانے پر مرکوز کرتا تھا کہ ہر بار کس جگہ کو چھوا گیا ۔
پازیٹیو میموری ریفرمنگ یا مثبت یادداشت کی اصلاح والی تکنیک میں بچوں سے ماضی کے انجیکشن کے بارے میں بات کرنا اور مثبت پہلوؤں پر زور دینا شامل ہے۔ جیسے کہ بچہ کتنا بہادر تھا اور اپنی پریشانی کو کم کرنے کے لیے اس کے مخصوص حکمت عملیوں کی تعریف کرنا، مثال کے طور پر گہری سانس لینا اور دور دیکھنا۔ اس کا مقصد بچوں کو انجکشن کے عمل سے بہتر طریقے سے نمٹنے میں مدد دینے کے لیے خود افادیت کے احساس کو فروغ دینا ہے۔
دونوں حکمت عملیوں کا تجربہ غیر طبی ترتیبات (جیسے اسکولوں) میں کیا گیا تاکہ ویکسینیشن کے وسیع پروگراموں کی صلاحیت کو زیادہ سے زیادہ بنایا جا سکے جو بچوں کو کم سے کم تکلیف پہنچاتے ہیں۔
( اس خبر کا مواد جریدے سائنس ڈیلی سے لیا گیا ہے۔)