انسانی ایمبریونک سٹیم سیل پر تحقیق بعض معاشرتی اور مذہبی وجوہات کی بنا پر اپنے آغاز سے ہی متنازعہ بنی ہوئی ہے۔ امریکہ میں اس تحقیق کے لیے مرکزی حکومت کی فندنگ پر جاری ایک مقدمے کی سماعت کے دوران واشنگٹن ڈی سی کی ایک عدالت نے کہا ہے کہ سماعت مکمل ہونے تک امریکی حکومت اس تحقیق کی فنڈنگ جاری رکھ سکتی ہے ۔
سولہ سالہ کیٹی کریمر ، لیوکمیا سے جنگ لڑ رہی ہیں ۔ انہیں فوری طور پر بون میرو ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہے ۔ ہڈی کے گودے یا سٹیم سیل کی تبدیلی کے بغیر اس کی زندگی بچانا ممکن نہیں ۔
کیٹی کو ان کے امریکی والدین نے ایک چینی شہر سے گود میں لیاتھا۔ کسی ایسے شخص کو ڈھونڈنے کے لیے جس کے جین ، کیٹی کے جین سے مطابقت رکھتے ہوں، کئی لوگ اپنا ٹیسٹ کروا چکے ہیں جبکہ مزید لوگ بھی اس کی مدد پر تیار ہیں ۔ ہڈیوں کے گودے کی پیوند کاری سٹیم سیل تھراپی کی ان کئی مثالوں میں شامل ہیں جن سے کئی مریض پہلے ہی فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔
انسانی ایمبریوز سے حاصل کیے جانے والے خلیوں پر ریسرچ امریکہ میں ایک عرصے سے متنازعہ موضوع چلی آرہی ہے ۔ اس کے حامیوں کے مطابق ان خلیوں کی مدد سے ریڑھ کی ہڈی کی چوٹوں اوردوسرے امراض سے بچانے میں مدد مل سکتی ہے، جس کے باعث انسان معذرو ہوجاتا ہے۔
سینیٹر جان کیری کا کہنا ہے کہ سٹیم سیلز دل کے ناکارہ ہوجانے والے سیلز یا کینسر زدہ سیلز کی جگہ لے سکتے ہیں ۔ یہ ان لوگوں کے لیے امیدکی کرن ثابت ہوسکتے ہیں جن کا مرض کا ابھی تک کوئی علاج نہیں ہے۔
جبکہ مخالفین کی رائے میں سٹیم سیلز کے لیئے انسانی ایمبریوز کا استعمال ایک انسانی جان کو ضائع کرنے کے برابر ہے۔روایتی طور پر آزاد خیال ڈیموکریٹز کی اکثریت سٹیم سیل ریسرچ کی حمایت جبکہ قدامت پسند ریپبلیکنز کی اکثریت اس کی مخالفت کرتی آئی ہے ۔
صدر اوباما انسانی ایمبریونک سٹیم سیلز پر مشتمل ریسرچ میں اضافہ چاہتے ہیں ۔ گزشتہ سال انہوں نے اس ریسرچ کے لیے وفاقی فنڈنگ میں اضافے کی منظوری دی تھی ۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جب ایمبرنک سٹم سیل کوایک انسان کے جسم میں داخل کیا جاتا ہے تو یہ ایک ایمبریو بناتا ہے ۔ یہ ایک مکمل جسم ہوتا ہے۔
پروفیسر مک کیفری کے مطابق اس تحقیق سے اس سے نشونما کے عمل کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اس اہم ریسرچ کا سب سے زیادہ انحصار ہے سٹیم سیلز کے ابتدائی عمل سے متعلق ہے ، جن سے ایمبریو بنتا ہے ۔
سائنس دانوں کی رائے میں اس عمل کے سمجھ آجانے سے انہیں دوسرے خلیوں کے نئے سرے سے بننے کے عمل کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی ۔ جس سے پارکنسنز اور دوسرے امراض کے علاج کی امید کی جاسکتی ہے ۔