کراچی —
’سندھ ترقی پسند پارٹی‘ کے رہنما، ڈاکٹر قادر مگسی کا کہنا ہے کہ سندھ کی سرزمین سندھیوں کے لئے ماں کا درجہ رکھتی ہے اور ماں کی تقسیم کسی کو گوارہ نہیں ہوتی۔ وہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما الطاف حسین کے ’ففٹی ففٹی‘ فارمولے کو بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر سنہ 1947 میں ہندوستان سے آئے ہوئے لوگوں کے بچوں کے لئے پرائمری اسکول میں سندھی پڑھنا لازمی قراردے دیا جاتا تو آج ساری اردو آبادی سندھی بولنے پر آمادہ ہوتی۔
سندھ کی تقسیم کسی کو منظور نہیں، اپنے اس موقف کی ترجمانی کے لئے انہوں نے 9 فروری کو کراچی میں ایک ریلی نکالنے کا بھی اعلان کیا ہے جسے انہوں نے ’سندھ مُھنجی ماءُ‘ (سندھ میری ماں) کا نام دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریلی کا مقصدان تمام قوتوں کو جو سندھ کی تقسیم چاہتی ہیں، یہ پیغام پہنچانا ہے کہ سندھ ناقابل تقسیم ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر قادر مگسی ’سندھ میری ماں‘ ریلی کے انعقاد کا مقصد مزید واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’حال ہی میں، متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے کہا تھا کہ سندھی نہ بولنے والے افراد کی شرح60فیصد اور سندھی بولنے اور سمجھنے والے افراد کی شرح 40 فیصد ہے۔ لہذا، اگر سندھی آمادہ ہوجائیں تو سندھ کو ’ففٹی ففٹی‘ تقسیم کردیا جائے۔ پھر انہوں نے ’سندھ ون‘ اور ’سندھ ٹو ‘کا فارمولا بھی پیش کیا۔ لیکن، ہمیں کسی طرح سندھ کی تقسیم منظور نہیں۔ اس لئے ہم ان تمام قوتوں کو جو سندھ کی بنیادی وحدت کے خلاف کام کررہی ہیں انہیں باور کرانا چاہتے ہیں کہ سندھ کسی فرد واحد کی بنائی ہوئی دھرتی نہیں۔ پاکستان ایک مملکت ہے۔ اسے نہ تو فرد واحد کی مرضی پر لسانی یونٹس میں تقسیم کیا جاسکتا ہے نہ توڑا جا سکتا ہے۔ اسی لئے ہم سندھ کو اپنی ماں کا درجہ دیتے ہیں اور ’سندھ میری ماں‘ کے عنوان سے ریلی کرنا چاہتے اور اپنا پیغام دنیا بھر کے مہذب معاشروں کو دینا چاہتے ہیں۔ 9فروری کوسارے سندھی اپنے روایتی لباس، ٹوپی، پٹکا اور اجرک پہن کر کراچی میں احتجاجی ریلی نکالیں گے اور سندھ میں اپنی وحدانیت کا اظہار کریں گے۔‘
’کیا آپ نے اردو بولنے والوں کو بھی ریلی میں شرکت کی دعوت دی ہے؟‘
’بالکل۔ بلاتفریق رنگ، نسل اور مذہب۔ جو لوگ 1947ءمیں پاکستان آگئے، ہم انہیں اپنا بھائی تصور کرتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی لسانی تفریق نہیں۔ آج کراچی، حیدرآباد یا دیگر شہروں میں رہنے والا شخص جو سندھی نہیں بول سکتا، اس کی ذمے دار ریاست کی نسل پرست پالیسی ہے۔ اگر 1947ءمیں ہندوستان سے آئے ہوئے لوگوں کے بچوں کو پرائمری میں سندھی پڑھانا لازمی قرار دیا جاتا، تو آج ساری اردو آبادی سندھی بولنے پر آمادہ ہوتی اور سندھیوں کی طرح ہی سندھی بول سکتی۔ میں نسلی طور پر بلوچ ہوں۔ میرا قبیلہ بلوچ ہے۔ میں گھر میں بلوچی بولتا ہوں۔ لیکن قومی طور پر میری پہچان سندھی ہے۔ اس حوالے سے کسی اردو ، پنچابی یا پشتو بولنے والے کے لئے ریلی میں شرکت کی ممانعت نہیں ہے۔ ہم دہشت گردانہ پالیسی اور سندھ کی تقسیم کے خلاف ہیں۔‘
قادر مگسی کا یہ بھی کہنا ہے ’جو لوگ سندھ کو ماں سمجھتے ہیں اور تقسیم کے خلاف ہیں وہ ہر صورت 9 فروری کو مزار قائد کراچی آئیں اور بندر روڈ پر تبت سینٹر تک اس ریلی میں شریک ہوکر سندھ سے یکجہتی کا اظہار کریں اور یہ پیغام عام کریں کہ وہ ملک کی تقسیم در تقسیم پالیسی کے حق میں نہیں ہیں۔‘
اس سوال پر کہ اگر پنجاب میں سرائیکی اور ہزارہ صوبے کی بات ہوسکتی ہے، تو سندھ میں کیوں نہیں۔ ڈاکٹر قادر مگسی نے کہا، ’پنجاب 1947ءمیں ہی تقسیم کردیا گیاتھا۔ ایسٹ پنجاب ہندوستان کے حصے میں اور باقی پاکستان کے حصے میں آیا۔ یہ تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہوئی۔ پاکستانی پنجاب کا عالم یہ ہے کہ یہاں سرائیکی بہت بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ لیکن، اس کے باوجود، ان کی قومی شناخت کہیں گم ہوگئی ہے۔ وہ اپنے قومی وجود کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں اور پنجاب کی تقسیم کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہمارا کوئی سروکار نہیں۔ ہم سرائیکیوں کی قومی حیثیت تسلیم کرتے ہیں انہیں’قوم‘ کا درجہ ملنا چاہئے۔‘
’دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی جہاں ضرورتیں پوری نہ ہوں تو اس کے لئے ملک کو ہی تقسیم کرنے کی باتیں ہونے لگیں۔ ملک کو امن و امان کی اشد ضرورت ہے، کرپشن بڑھ گیا ہے، آئین سازی اور احتساب کا عمل نہیں ہے۔ عوامی نمائندے، وزرا اور مشیر نوکریاں پیسوں میں بیچ رہے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کو ڈیولیپ نہیں کرتے۔ وہ بچوں کی تعلیم اور صحت کے انتظامات نہیں کرتے۔ لیکن اس کا مقصد قطعی یہ نہیں کہ کوئی کہے کہ میرے بچے کو نوکری نہیں مل رہی، میرے بچے کے لئے کوئی اسکو ل نہیں ہے تو وطن تقسیم کر دو۔ دنیا میں یہ کہیں نہیں ہوتا کہ قوم کی تشکیل 50,60سالوں میں ہوسکی ہو۔ ہزاروں سالوں کے تسلسل سے قوم کی تشکیل ہوتی ہے۔‘
’آخر سندھ کی تقسیم کی باتیں، خواہ کوئی بھی کرے، کیوں کی جاتی ہیں؟‘
’ایم کیوایم جنرل ضیا کے دور میں وجود میں آئی تھی۔ اس سے قبل، ایم کیوایم کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ بھٹو کی پھانسی پر سندھیوں میں غصہ تھا۔ اس غصے کو سندھ کا ایک نیا اسٹیک ہولڈر پیدا کرکے ہمیشہ کے لئے ختم کرنا مقصود تھا، اس لئے، ضیا الحق نے اردو کے نام پر نسل پرستی کی بنیاد رکھی۔ ورنہ، اس سے پہلے نہ ایم کیو ایم تھی اور نہ سندھ کی تقسیم کی باتیں کوئی کرتا تھا۔ سندھ پر سندھیوں کا دعویٰ تاریخی ہے ۔ رائٹ ٹو رول ہمارا یہ حق ہے۔ ہماری ثقافت اور جو زبان ہے اسے قومی درجہ ملنا چاہئے۔ ہمارے جو بھی وسائل ہیں مثلاً تیل، گیس، کوئلہ۔ اس پر ملکیت کا اختیار ہمارا ہونا چاہئے۔ اس جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے لئے جنرل ضیاٴ نے ایک ٹول بنایا جو اب تک ان مفادات کے لئے کام کررہا ہے۔سندھ کے قومی حقوق کو پیچھے دھکیلنے کے لئے ہمیشہ اس طرح کی نسل پرستی کی باتیں کی جاتیں ہیں۔‘
’کیا سندھ کی دوسری قوم پرست جماعتیں بھی اس نظریے پریقین رکھتی ہیں کہ سندھ تقسیم نہیں ہونا چاہیے یا صرف آپ کی جماعت ایسا سوچتی ہے؟‘
یہ جماعت کا مسئلہ نہیں ہے۔ سندھ کا بچہ بچہ یہ چاہتا ہے۔ یہ بات جماعت سے بالکل علیحدہ ہے۔ آپ پیپلز پارٹی سے معلوم کریں، ن لیگ یا سندھ میں کام کرنے والے کسی بھی بات کریں کوئی بھی آدمی سندھ کی تقسیم کے حق میں نہیں ہوگا۔‘
’پاکستان میں روزبہ روز عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔ اس کا ذمے دار کون ہے ؟ ایسے میں قوم پرست جماعتوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔ وہ آگے کیوں نہیں آتیں؟‘
’ہم کبھی حکمرانوں کے سرکل میں نہیں گئے۔ لیکن، ذمہ دار حکمران ہی ہیں۔ اگر کوئی حکمراں اپنے شہری کو تحفظ نہیں دے سکتا اور کسی شہری کے جان ومال کی حفاظت نہیں کرسکتا تو اس کو کیا حق ہے کہ وہ حکمراں بن کے بیٹھا رہے۔ آج اسلام کے نام پرجو انتہا پسندی ہو رہی ہے، اس کے بھی ذمہ دار وہی ہیں۔ اسلامی بنیاد پرستی کو بھی فوجی جرنیل ہی لے کر آیا تھا۔‘
’قوم پرست جماعتیں کچھ کرسکتی ہیں؟ کم ازکم سندھ کی حدتک ہی سہی؟ ‘
’بالکل۔ ہمارے پاس تجاویز ہیں۔ سب سے پہلے پولیس میں سیاسی مداخلت کو ختم کرنا ہوگا۔ کراچی پولیس میں سیاسی پارٹیوں کے کارکن موجود ہیں جو اپنی پارٹیوں کے حلف یافتہ ہیں۔ ان کی اپنی اپنی سیاسی جماعتوں سے وفاداریاں ہیں۔ لہذا، پہلے ان پر روک لگائی جائے۔ پھر سندھ میں غیر قانونی طور پر موجود غیر قانونی تارکین وطن کو روکا جائے۔ یہاں بڑی تعداد میں افغانی، بنگالی، نیپالی موجود ہیں، جو دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے والا ’سستا مواد‘ ہیں۔ اگر ہماری تجاویز پر عمل ہوا تو سندھ ہی نہیں پورا پاکستان امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔‘
’سندھ کی قوم پرست جماعتیں موجودہ سیاسی سیٹ اپ خاص کر بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کیا نظریہ رکھتی ہیں؟‘
’ہم بلدیاتی انتخابات کے حق میں ہیں۔ بلدیاتی انتخابات ہونے چاہئیں۔ گراس روٹ لیول تک پاور منتقل ہونا چاہئے۔ جتنی بھی میونسپل سروسز ہیں وہ لوکل گورنمنٹ کے ذریعے عوام کو ملنا چاہئیں۔ لیکن، انتخابات میں بیوروکریسی کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے۔ لوگ آزادانہ طور پر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔ رہی بات ملکی سیاست کی تو اس حوالے سے ہماری بہت ساری شکایات ہیں۔ اس میں درستگی کی ضرورت ہے۔ ہمیں انتخابی طریقہ کار پر اعتراضات ہیں۔ عدل و انصاف کے طریقے پر اعتراضات ہیں۔ ہمارے خیال میں کرپشن کے لئے کیپٹل پنشمنٹ مقرر کی جانی چاہئے۔ اگر حکمراں صرف کرپشن سے ہی چھٹکارہ حاصل کرلیں، تو ملک کافی آگے چلا جائے گا۔‘
سندھ کی تقسیم کسی کو منظور نہیں، اپنے اس موقف کی ترجمانی کے لئے انہوں نے 9 فروری کو کراچی میں ایک ریلی نکالنے کا بھی اعلان کیا ہے جسے انہوں نے ’سندھ مُھنجی ماءُ‘ (سندھ میری ماں) کا نام دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریلی کا مقصدان تمام قوتوں کو جو سندھ کی تقسیم چاہتی ہیں، یہ پیغام پہنچانا ہے کہ سندھ ناقابل تقسیم ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر قادر مگسی ’سندھ میری ماں‘ ریلی کے انعقاد کا مقصد مزید واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’حال ہی میں، متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے کہا تھا کہ سندھی نہ بولنے والے افراد کی شرح60فیصد اور سندھی بولنے اور سمجھنے والے افراد کی شرح 40 فیصد ہے۔ لہذا، اگر سندھی آمادہ ہوجائیں تو سندھ کو ’ففٹی ففٹی‘ تقسیم کردیا جائے۔ پھر انہوں نے ’سندھ ون‘ اور ’سندھ ٹو ‘کا فارمولا بھی پیش کیا۔ لیکن، ہمیں کسی طرح سندھ کی تقسیم منظور نہیں۔ اس لئے ہم ان تمام قوتوں کو جو سندھ کی بنیادی وحدت کے خلاف کام کررہی ہیں انہیں باور کرانا چاہتے ہیں کہ سندھ کسی فرد واحد کی بنائی ہوئی دھرتی نہیں۔ پاکستان ایک مملکت ہے۔ اسے نہ تو فرد واحد کی مرضی پر لسانی یونٹس میں تقسیم کیا جاسکتا ہے نہ توڑا جا سکتا ہے۔ اسی لئے ہم سندھ کو اپنی ماں کا درجہ دیتے ہیں اور ’سندھ میری ماں‘ کے عنوان سے ریلی کرنا چاہتے اور اپنا پیغام دنیا بھر کے مہذب معاشروں کو دینا چاہتے ہیں۔ 9فروری کوسارے سندھی اپنے روایتی لباس، ٹوپی، پٹکا اور اجرک پہن کر کراچی میں احتجاجی ریلی نکالیں گے اور سندھ میں اپنی وحدانیت کا اظہار کریں گے۔‘
’کیا آپ نے اردو بولنے والوں کو بھی ریلی میں شرکت کی دعوت دی ہے؟‘
’بالکل۔ بلاتفریق رنگ، نسل اور مذہب۔ جو لوگ 1947ءمیں پاکستان آگئے، ہم انہیں اپنا بھائی تصور کرتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی لسانی تفریق نہیں۔ آج کراچی، حیدرآباد یا دیگر شہروں میں رہنے والا شخص جو سندھی نہیں بول سکتا، اس کی ذمے دار ریاست کی نسل پرست پالیسی ہے۔ اگر 1947ءمیں ہندوستان سے آئے ہوئے لوگوں کے بچوں کو پرائمری میں سندھی پڑھانا لازمی قرار دیا جاتا، تو آج ساری اردو آبادی سندھی بولنے پر آمادہ ہوتی اور سندھیوں کی طرح ہی سندھی بول سکتی۔ میں نسلی طور پر بلوچ ہوں۔ میرا قبیلہ بلوچ ہے۔ میں گھر میں بلوچی بولتا ہوں۔ لیکن قومی طور پر میری پہچان سندھی ہے۔ اس حوالے سے کسی اردو ، پنچابی یا پشتو بولنے والے کے لئے ریلی میں شرکت کی ممانعت نہیں ہے۔ ہم دہشت گردانہ پالیسی اور سندھ کی تقسیم کے خلاف ہیں۔‘
قادر مگسی کا یہ بھی کہنا ہے ’جو لوگ سندھ کو ماں سمجھتے ہیں اور تقسیم کے خلاف ہیں وہ ہر صورت 9 فروری کو مزار قائد کراچی آئیں اور بندر روڈ پر تبت سینٹر تک اس ریلی میں شریک ہوکر سندھ سے یکجہتی کا اظہار کریں اور یہ پیغام عام کریں کہ وہ ملک کی تقسیم در تقسیم پالیسی کے حق میں نہیں ہیں۔‘
اس سوال پر کہ اگر پنجاب میں سرائیکی اور ہزارہ صوبے کی بات ہوسکتی ہے، تو سندھ میں کیوں نہیں۔ ڈاکٹر قادر مگسی نے کہا، ’پنجاب 1947ءمیں ہی تقسیم کردیا گیاتھا۔ ایسٹ پنجاب ہندوستان کے حصے میں اور باقی پاکستان کے حصے میں آیا۔ یہ تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہوئی۔ پاکستانی پنجاب کا عالم یہ ہے کہ یہاں سرائیکی بہت بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ لیکن، اس کے باوجود، ان کی قومی شناخت کہیں گم ہوگئی ہے۔ وہ اپنے قومی وجود کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں اور پنجاب کی تقسیم کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہمارا کوئی سروکار نہیں۔ ہم سرائیکیوں کی قومی حیثیت تسلیم کرتے ہیں انہیں’قوم‘ کا درجہ ملنا چاہئے۔‘
’دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی جہاں ضرورتیں پوری نہ ہوں تو اس کے لئے ملک کو ہی تقسیم کرنے کی باتیں ہونے لگیں۔ ملک کو امن و امان کی اشد ضرورت ہے، کرپشن بڑھ گیا ہے، آئین سازی اور احتساب کا عمل نہیں ہے۔ عوامی نمائندے، وزرا اور مشیر نوکریاں پیسوں میں بیچ رہے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کو ڈیولیپ نہیں کرتے۔ وہ بچوں کی تعلیم اور صحت کے انتظامات نہیں کرتے۔ لیکن اس کا مقصد قطعی یہ نہیں کہ کوئی کہے کہ میرے بچے کو نوکری نہیں مل رہی، میرے بچے کے لئے کوئی اسکو ل نہیں ہے تو وطن تقسیم کر دو۔ دنیا میں یہ کہیں نہیں ہوتا کہ قوم کی تشکیل 50,60سالوں میں ہوسکی ہو۔ ہزاروں سالوں کے تسلسل سے قوم کی تشکیل ہوتی ہے۔‘
’آخر سندھ کی تقسیم کی باتیں، خواہ کوئی بھی کرے، کیوں کی جاتی ہیں؟‘
’ایم کیوایم جنرل ضیا کے دور میں وجود میں آئی تھی۔ اس سے قبل، ایم کیوایم کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ بھٹو کی پھانسی پر سندھیوں میں غصہ تھا۔ اس غصے کو سندھ کا ایک نیا اسٹیک ہولڈر پیدا کرکے ہمیشہ کے لئے ختم کرنا مقصود تھا، اس لئے، ضیا الحق نے اردو کے نام پر نسل پرستی کی بنیاد رکھی۔ ورنہ، اس سے پہلے نہ ایم کیو ایم تھی اور نہ سندھ کی تقسیم کی باتیں کوئی کرتا تھا۔ سندھ پر سندھیوں کا دعویٰ تاریخی ہے ۔ رائٹ ٹو رول ہمارا یہ حق ہے۔ ہماری ثقافت اور جو زبان ہے اسے قومی درجہ ملنا چاہئے۔ ہمارے جو بھی وسائل ہیں مثلاً تیل، گیس، کوئلہ۔ اس پر ملکیت کا اختیار ہمارا ہونا چاہئے۔ اس جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے لئے جنرل ضیاٴ نے ایک ٹول بنایا جو اب تک ان مفادات کے لئے کام کررہا ہے۔سندھ کے قومی حقوق کو پیچھے دھکیلنے کے لئے ہمیشہ اس طرح کی نسل پرستی کی باتیں کی جاتیں ہیں۔‘
’کیا سندھ کی دوسری قوم پرست جماعتیں بھی اس نظریے پریقین رکھتی ہیں کہ سندھ تقسیم نہیں ہونا چاہیے یا صرف آپ کی جماعت ایسا سوچتی ہے؟‘
یہ جماعت کا مسئلہ نہیں ہے۔ سندھ کا بچہ بچہ یہ چاہتا ہے۔ یہ بات جماعت سے بالکل علیحدہ ہے۔ آپ پیپلز پارٹی سے معلوم کریں، ن لیگ یا سندھ میں کام کرنے والے کسی بھی بات کریں کوئی بھی آدمی سندھ کی تقسیم کے حق میں نہیں ہوگا۔‘
’پاکستان میں روزبہ روز عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔ اس کا ذمے دار کون ہے ؟ ایسے میں قوم پرست جماعتوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔ وہ آگے کیوں نہیں آتیں؟‘
’ہم کبھی حکمرانوں کے سرکل میں نہیں گئے۔ لیکن، ذمہ دار حکمران ہی ہیں۔ اگر کوئی حکمراں اپنے شہری کو تحفظ نہیں دے سکتا اور کسی شہری کے جان ومال کی حفاظت نہیں کرسکتا تو اس کو کیا حق ہے کہ وہ حکمراں بن کے بیٹھا رہے۔ آج اسلام کے نام پرجو انتہا پسندی ہو رہی ہے، اس کے بھی ذمہ دار وہی ہیں۔ اسلامی بنیاد پرستی کو بھی فوجی جرنیل ہی لے کر آیا تھا۔‘
’قوم پرست جماعتیں کچھ کرسکتی ہیں؟ کم ازکم سندھ کی حدتک ہی سہی؟ ‘
’بالکل۔ ہمارے پاس تجاویز ہیں۔ سب سے پہلے پولیس میں سیاسی مداخلت کو ختم کرنا ہوگا۔ کراچی پولیس میں سیاسی پارٹیوں کے کارکن موجود ہیں جو اپنی پارٹیوں کے حلف یافتہ ہیں۔ ان کی اپنی اپنی سیاسی جماعتوں سے وفاداریاں ہیں۔ لہذا، پہلے ان پر روک لگائی جائے۔ پھر سندھ میں غیر قانونی طور پر موجود غیر قانونی تارکین وطن کو روکا جائے۔ یہاں بڑی تعداد میں افغانی، بنگالی، نیپالی موجود ہیں، جو دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے والا ’سستا مواد‘ ہیں۔ اگر ہماری تجاویز پر عمل ہوا تو سندھ ہی نہیں پورا پاکستان امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔‘
’سندھ کی قوم پرست جماعتیں موجودہ سیاسی سیٹ اپ خاص کر بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کیا نظریہ رکھتی ہیں؟‘
’ہم بلدیاتی انتخابات کے حق میں ہیں۔ بلدیاتی انتخابات ہونے چاہئیں۔ گراس روٹ لیول تک پاور منتقل ہونا چاہئے۔ جتنی بھی میونسپل سروسز ہیں وہ لوکل گورنمنٹ کے ذریعے عوام کو ملنا چاہئیں۔ لیکن، انتخابات میں بیوروکریسی کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے۔ لوگ آزادانہ طور پر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔ رہی بات ملکی سیاست کی تو اس حوالے سے ہماری بہت ساری شکایات ہیں۔ اس میں درستگی کی ضرورت ہے۔ ہمیں انتخابی طریقہ کار پر اعتراضات ہیں۔ عدل و انصاف کے طریقے پر اعتراضات ہیں۔ ہمارے خیال میں کرپشن کے لئے کیپٹل پنشمنٹ مقرر کی جانی چاہئے۔ اگر حکمراں صرف کرپشن سے ہی چھٹکارہ حاصل کرلیں، تو ملک کافی آگے چلا جائے گا۔‘