واشنگٹن —
ایک وقت تھا جب پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں کی دھاک نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ پھر زمانہ بدلا اور پاکستان میں جہاں کبھی صرف ایک پی ٹی وی چینل ہوا کرتا تھا اس کی جگہ درجنوں چینلز نے لے لی۔ گذشتہ ایک دہائی میں پاکستان میں نہ صرف انٹرٹینمنٹ چینلز بلکہ ان پر چلنے والے ڈراموں کی تعداد میں بھی بہت اضافہ ہوا۔
یہ ڈرامے اپنے کرداروں اور منفرد کہانیوں کی وجہ سے عوام میں مقبولیت کا درجہ حاصل کرتے ہیں۔ ڈراموں کی مقبولیت کا انحصار ہوتا ہے ایک اچھی کہانی پر۔ اور کہانی کی بُنت کا ذمہ دار ہوتا ہے لکھاری۔ گذشتہ کچھ عرصے میں پاکستان میں بہت سے رائٹرز نے اپنا منفرد اور الگ مقام بنایا۔ انہی میں سے ایک نام ہے رفعت ہمایوں کا، جنہوں نے ’خالہ خیرن‘، ’اے دشتِ جنوں‘ اور ’خلش‘ جیسے ڈرامے تخلیق کیے۔
گذشتہ دنوں رفعت ہمایوں امریکہ آئی ہوئی تھیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کا دورہ کیا اور وی او اے سے گفتگو بھی کی۔
رفعت ہمایوں نے اپنے قلمی سفر پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھنے کو ایک مشکل کام قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک اچھا لکھاری وہ ہوتا ہے جو ’آمد‘ پر کچھ لکھتا ہے نہ کہ ’بھرتی‘ کے طور پر۔ لیکن وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ پاکستان میں اتنے ڈرامے بننا شروع ہو گئے ہیں کہ ایک لکھاری کے لیے اتنا سب کچھ لکھنا ممکن نہیں رہتا۔ موضوعات میں تنوع نہیں رہتا اور ناظرین کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مختلف ٹی وی چینلز پر ایک ہی طرح کے موضوعات پر ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں۔
رفعت ہمایوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کا باہر نکلنا یا کام کرنا ابھی بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اور لکھنا ایک ’فل ٹائم پروفیشن‘ ہے جس میں نہ دن کا پتہ چلتا ہے اور نہ رات کا۔ اگر ڈرامے کی قسط جانی ہے تو آپ نے وہ قسط وقت پر ہی لکھنی ہے۔ ایسے میں بعض اوقات معیار پر سمجھوتا بھی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن رفعت کہتی ہیں کہ وہ ان لکھاریوں میں سے نہیں ہیں جو اپنے کام پر سمجھوتا کریں۔ اسی لیے وہ سال میں ایک پروجیکٹ سے زیادہ کام نہیں کرتیں۔
رفعت کہتی ہیں کہ بدلتے وقت نے زمانے کے انداز بدل ڈالے اور جہاں پہلے لوگوں کے ہاتھوں میں کتاب ہوتی تھی، اسکی جگہ اب کمپیوٹر نے لے لی ہے۔ لیکن وہ اب بھی اس دور کو یاد کرتی ہیں جب لحاف میں چھپ کر کتابیں پڑھی جاتی تھیں۔ رفعت کہتی ہیں، ’’وہ وقت بہت اچھا تھا جب دل چاہا کتاب کا کونا موڑا اور تخیل کی دنیا میں چلے گئے۔ اب ایسا نہیں ہے، اب لوگوں نے فلموں اور ٹی وی کو کتاب کی جگہ دے ڈالی ہے۔‘‘
اس انٹرویو کے بارے میں مزید جاننے کے لیے نیچے دی گئی آڈیو فائل پر کلک کیجیئے۔
یہ ڈرامے اپنے کرداروں اور منفرد کہانیوں کی وجہ سے عوام میں مقبولیت کا درجہ حاصل کرتے ہیں۔ ڈراموں کی مقبولیت کا انحصار ہوتا ہے ایک اچھی کہانی پر۔ اور کہانی کی بُنت کا ذمہ دار ہوتا ہے لکھاری۔ گذشتہ کچھ عرصے میں پاکستان میں بہت سے رائٹرز نے اپنا منفرد اور الگ مقام بنایا۔ انہی میں سے ایک نام ہے رفعت ہمایوں کا، جنہوں نے ’خالہ خیرن‘، ’اے دشتِ جنوں‘ اور ’خلش‘ جیسے ڈرامے تخلیق کیے۔
گذشتہ دنوں رفعت ہمایوں امریکہ آئی ہوئی تھیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کا دورہ کیا اور وی او اے سے گفتگو بھی کی۔
رفعت ہمایوں نے اپنے قلمی سفر پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھنے کو ایک مشکل کام قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک اچھا لکھاری وہ ہوتا ہے جو ’آمد‘ پر کچھ لکھتا ہے نہ کہ ’بھرتی‘ کے طور پر۔ لیکن وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ پاکستان میں اتنے ڈرامے بننا شروع ہو گئے ہیں کہ ایک لکھاری کے لیے اتنا سب کچھ لکھنا ممکن نہیں رہتا۔ موضوعات میں تنوع نہیں رہتا اور ناظرین کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مختلف ٹی وی چینلز پر ایک ہی طرح کے موضوعات پر ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں۔
رفعت ہمایوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کا باہر نکلنا یا کام کرنا ابھی بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اور لکھنا ایک ’فل ٹائم پروفیشن‘ ہے جس میں نہ دن کا پتہ چلتا ہے اور نہ رات کا۔ اگر ڈرامے کی قسط جانی ہے تو آپ نے وہ قسط وقت پر ہی لکھنی ہے۔ ایسے میں بعض اوقات معیار پر سمجھوتا بھی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن رفعت کہتی ہیں کہ وہ ان لکھاریوں میں سے نہیں ہیں جو اپنے کام پر سمجھوتا کریں۔ اسی لیے وہ سال میں ایک پروجیکٹ سے زیادہ کام نہیں کرتیں۔
رفعت کہتی ہیں کہ بدلتے وقت نے زمانے کے انداز بدل ڈالے اور جہاں پہلے لوگوں کے ہاتھوں میں کتاب ہوتی تھی، اسکی جگہ اب کمپیوٹر نے لے لی ہے۔ لیکن وہ اب بھی اس دور کو یاد کرتی ہیں جب لحاف میں چھپ کر کتابیں پڑھی جاتی تھیں۔ رفعت کہتی ہیں، ’’وہ وقت بہت اچھا تھا جب دل چاہا کتاب کا کونا موڑا اور تخیل کی دنیا میں چلے گئے۔ اب ایسا نہیں ہے، اب لوگوں نے فلموں اور ٹی وی کو کتاب کی جگہ دے ڈالی ہے۔‘‘
اس انٹرویو کے بارے میں مزید جاننے کے لیے نیچے دی گئی آڈیو فائل پر کلک کیجیئے۔