اللہ بخشے میری دادی جان ٹیلی ویژن کو ’مُوا شیطانی ڈبہ‘ کہا کرتی تھیں۔ کہتی تھیں کہ اس کے سامنے بیٹھ کر انسان کو اللہ اور دنیا کی خبر نہیں رہتی۔ حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں ٹیلی ویژن چینلز کے نام پر صرف پی ٹی وی ہوا کرتا تھا اور ٹی وی ڈرامے انتہائی شریفانہ ہوتے تھے جنہیں خاندان بھر کے لوگ اکٹھے بیٹھ کر دیکھتے تھے۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق کئی گھروں کی طرح ہمارے گھر میں بھی ٹھیک نو بجے خبرنامے اور گھڑی کی سوئیاں ملا کر کھانا چن دیا جاتا تھا۔ اور رات کو دس یا گیارہ بجے ٹی وی پر ’پاک سر زمین شاد باد‘ کا ترانہ دن کے اختتام کی خبر دیتا تھا ۔۔۔
لیکن پھر وہی ہوا جو ہوا کرتا ہے ۔۔۔ زمانہ بدلا اور زمانے کے انداز بھی بدل گئے ۔۔۔ ایک ایک کرکے چینلز کی گویا کھمبیاں اگتی چلی گئیں۔ خبروں کا چینل، انٹرٹینمنٹ کا چینل، میوزک کا چینل، کھیل کا چینل، کھانا پکانے کا چینل، فیشن کا چینل، مذہبی چینل، علاقائی چینل، صوبائی زبانوں کے چینل وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ رفتہ رفتہ پروگراموں کے انداز بھی بدلنے لگے اور پچھلے دس سالوں میں تغیر ِ وقت نے بہت کچھ بدل ڈالا۔
کبھی ٹیلی ویژن کا شمار ’تعیشات‘ میں کیا جاتا تھا لیکن اب یہ دنیا بھر کی ضرورت ہے۔ بطور ویب ایڈیٹر ٹی وی دیکھنا گویا ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ پورا دن مختلف چینلز کی مانیٹرنگ جاری رہتی ہے کہ کہیں کوئی بڑی خبر ویب سائیٹ پر ڈالنے سے چُوک نہ جائے ۔۔۔ اور’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافرلگی ہوئی‘ کے مصداق دفتر کی یہ عادت گھر پر بھی پیچھا نہیں چھوڑتی۔ یوں لگتا ہے کہ اگر گھر میں ٹیلی ویژن نہ چل رہا ہو تو گویا زندگی میں کوئی کمی سی ہے۔
خبروں کے چینلز پر بریکنگ نیوز کی لال پٹیوں اور خودساختہ ’دانشوروں‘ کے تبصروں اور تجزیوں سے جب دل اُوب جاتا ہے تو میں دوسرے چینلز دیکھنا شروع کرتی ہوں۔ رات کے جس پہر میں ٹی وی دیکھتی ہوں اس وقت پاکستان میں صبح کا سورج طلوع ہونے کے بعد انٹرٹینمنٹ چینلز کی باگ ڈور گویا ’مارننگ شوز‘ کے سپرد چلی جاتی ہے۔ جہاں ’ریٹنگ‘ کی دوڑ میں جیت کے لیے ساس بہو کو لڑانے سے لے کر دلہنوں کو سجانے تک، ڈاکٹروں کے مفت مشوروں سے لے کر عامل بابا بنگالی کی کرامات تک کیا کیا جتن نہیں کیے جاتے؟
اور جب اتنے جتن سے ٹی وی پر اتنے ’دلفریب‘ پروگرام پیش کیے جاتے ہیں تو بھلا ہمیں ہر وقت خشک سیاسی خبروں کے انبار میں غرق رہنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ صحافت اچھی چیز تو ہے مگر بقول شاعر ’لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے‘ ۔۔۔ یہی سوچ کر کل رات میں نے تہیہ کیا کہ خبروں کی سرخیاں دیکھنے کے بعد تفریحی چینلز سے جی بہلایا جائے ۔۔۔ اسے میری بے خبری سے تعبیر کریں یا پھر انٹرٹینمنٹ میں تقریبا نہ ہونے والی دلچسپی کو مورد ِ الزام ٹھہرائیں۔ میں پچھلے کئی سالوں سے پاکستان میں ’مارننگ شوز‘ کی روایت کے باوجود اس ٹرینڈ کو اس طرح سے ’فالو‘ نہیں کر پائی جیسا کہ اس کا ’حق‘ تھا۔ یوں میں ان شوز کے مزاج اور روایات سے بڑی حد تک ناواقف ہوں ۔۔۔
شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ میں آج بھی بنیادی طور پر پی ٹی وی کی ’صبح کی نشیریات‘ کے سحر میں ہی مبتلا ہوں کہ اس یاد کا سرا میرے بچپن سے جا ملتا ہے۔ مجھے یاد ہے سکول جانے کے لیے اماں صبح ساڑھے چھ بچے ہم تینوں بہنوں کو جگاتی تھیں۔ ہم اٹھ کر جلدی جلدی سکول کی تیاری یوں پکڑتے کہ سات بجے ٹی وی پر ہمارے ’چاچاجی‘ (مستنصر حسین تارڑ) نے آنا ہوتا تھا۔ اور وہ صرف ہمارے ہی چاچا جی نہیں تھے بلکہ بقول ان کے وہ پاکستان بھر میں چھ سال سے اسی سال کے سبھی ’بچوں‘ کے چاچا جی تھے۔ سات بجے ’صبح کی نشریات‘ کا آغاز تلاوت ِ کلام ِمجید سے ہوا کرتا تھا۔ جس کے بعد پانچ منٹ کے لیے بچوں کو ورزش سکھائی جاتی تھی۔ اور ہم بہنیں ٹی وی کے سامنے کھڑے ہو کر ساتھ ساتھ یہ ورزش کرتی جاتی تھیں۔ اس کے بعد پانچ منٹ کا وقت کارٹون کے لیے وقف تھا۔ اور کارٹون کے بعد باری ہوتی تھی پانچ منٹ کی خبروں کی۔ ادھر ساڑھے سات بجے خبروں کا میوزک بجتا اور گھر کے باہر ہمارے وین والے باباجی کا ہارن بھی ۔۔۔ اگر آپ نوے کی دہائی میں سکول جاتے تھے تو شاید اس طرح کی مبہم یادیں آپ کے حافظے کی پٹاری میں بھی موجود ہوں۔
بات کہاں سے کہاں جا نکلی۔ ہاں، تو میں بتا رہی تھی ’مارننگ شوز‘ کے بارے میں ۔۔۔ میں نے پہلا چینل لگایا تو خاتون میزبان (جو کسی زمانے میں اداکارہ بھی رہ چکی ہیں) بڑے سے ترازو کے ایک پلڑے میں بیٹھی تھیں۔ ان کے ساتھ ترازو کے دوسرے پلڑے میں ایک اور مہمان اداکارہ بیٹھی تھیں اور دونوں کے درمیان اس بات پر مقابلہ جاری تھا کہ کس کا وزن زیادہ ہے اور کس کا کم؟ حاضرین تالیاں بجا کر اس چُلبلی گفتگو کو داد سے نواز رہے تھے۔
میں نے گھبرا کر دوسرا چینل لگایا تو چمکیلے بھڑکیلے سرخ لباس میں ڈاکٹر میزبان بالکل کسی دلہن کی طرح سجی سنوری کھڑی تھیں۔ ان کے سامنے میز پر شادی کے روز کی مناسبت سے سونے کے زیورات کے دس بارہ ڈبے سجائے گئے تھے۔ اور وہ چند مہمان خواتین کے ساتھ ’حیدر آباد دکن میں دلہن کیسے تیار کی جاتی ہے‘ کے ’پرمغز‘ موضوع پر اظہار ِ خیال کر رہی تھیں۔
انٹرٹینمنٹ کے نام پر اس مظاہرے کے بعد میں نے ایک اور چینل پر سوئچ کیا جسے اس وقت پاکستان میں ڈرامے کے اعتبار سے منفرد مقام حاصل ہے۔ یہاں پر دوسرے چینلز کی روایت سے ہٹ کر ایک مرد فنکار مارننگ شو کی میزبانی سنبھالتے ہیں۔ ان کے شو کی ’تھیم‘ ساس بہو کا رشتہ تھی۔ انہوں نے ایک کامیڈین کو مدعو کر رکھا تھا جو جج کے فرائض سنبھال رہے تھے۔ شو میں دو خواتین پر مشتمل ٹیمیں بنائی گئی تھیں جنہیں آپس میں ساس بہو کی طرح لڑ کر دکھانا تھا۔ کامیڈین حضرت بیچ بیچ میں پھلجڑیاں بھی چھوڑتے جا رہے تھے۔ شو میں شریک خواتین ہنس ہنس کر بے حال ہوئی جا رہی تھیں۔ اللہ رے معصومیت۔
’’یقینا نیوز چینل کا مارننگ شو ان سے مختلف ہوگا‘‘، خود کلامی کرتے ہوئے میں نے ایک نیوز چینل کا رخ کیا۔ جہاں میزبان خاتون (معروف اداکارہ) چند لوگوں کے ساتھ کسی فیکٹری کے ایک چھوٹے سے تنگ و تاریک کمرے میں کھڑی تھیں۔ یہ لوگ انہیں باور کرا رہے تھے کہ فیکڑی پر جنات کا قبضہ ہے اور کوئی ’مائی کا لعل‘رات کے وقت چھت پر جانے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ جس پر ایک بزرگ کا فرمانا تھا کہ وہ یہ چیلنج قبول کرتے ہیں اور نہ صرف رات کے وقت چھت پر جانے کو بلکہ پوری رات وہیں گزارنے کو بھی تیار ہیں۔ خاتون میزبان خوفزدہ دکھائی دینے کی کوشش کر رہی تھیں اور ناظرین سے پوچھ رہی تھیں کہ انہیں دوبارہ وہاں آکر بہادری کا یہ عملی مظاہرہ کرنا چاہیئے کہ نہیں؟ فیکٹری میں جنات کا بسیرا ہے کہ نہیں؟ ۔۔۔ بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچ ہی گئیں کہ انہیں یہ ’کار ِ خیر‘ کر گزرنا چاہیئے۔
اس کے ساتھ ہی میری ہمت جواب دے گئی اور میں نے ٹی وی بند کردیا۔ کاش ٹی وی بند کرنے سے حقیقت بھی بدلی جا سکتی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں ’انٹرٹینمنٹ، انٹرٹینمنٹ اور صرف انٹرٹینمنٹ‘ چاہیئے۔ چینلز کہتے ہیں کہ انہیں ’ریٹنگ‘ چاہیئے۔ چینلز اور عوام کی ترجیحات اور ضروریات کا یہ رشتہ اسی نوعیت کے بے ہنگم، معقولیت سے عاری اور اخلاقی دیوالیہ پن پر مبنی پروگراموں کو ہی جنم دے سکتا ہے۔
میں ’چاچاجی‘ کو یاد کرتے ہوئے سوچنے لگی کہ زمانہ واقعی بدل گیا ہے، جہتیں بدل گئی ہیں اور رواج بدل گئے ہیں۔ کہاں وہ وقت جب ایک ایک لفظ ناپ تول کر ادا کیا جاتا تھا اور کہاں یہ وقت جب ’ریٹنگ‘ کی ’مکروہ‘ دوڑ میں اونچا اڑنے کے لیے لفظوں کو تو کیا اخلاقیات تک کو پامال کیا جا رہا ہے۔
نہ جانے کیوں، دادی جان کے لفظوں پر اب یقین کرنے کو جی چاہنے لگا ہے، ’’مُوا شیطانی ڈبہ‘‘ ۔۔۔
لیکن پھر وہی ہوا جو ہوا کرتا ہے ۔۔۔ زمانہ بدلا اور زمانے کے انداز بھی بدل گئے ۔۔۔ ایک ایک کرکے چینلز کی گویا کھمبیاں اگتی چلی گئیں۔ خبروں کا چینل، انٹرٹینمنٹ کا چینل، میوزک کا چینل، کھیل کا چینل، کھانا پکانے کا چینل، فیشن کا چینل، مذہبی چینل، علاقائی چینل، صوبائی زبانوں کے چینل وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ رفتہ رفتہ پروگراموں کے انداز بھی بدلنے لگے اور پچھلے دس سالوں میں تغیر ِ وقت نے بہت کچھ بدل ڈالا۔
کبھی ٹیلی ویژن کا شمار ’تعیشات‘ میں کیا جاتا تھا لیکن اب یہ دنیا بھر کی ضرورت ہے۔ بطور ویب ایڈیٹر ٹی وی دیکھنا گویا ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ پورا دن مختلف چینلز کی مانیٹرنگ جاری رہتی ہے کہ کہیں کوئی بڑی خبر ویب سائیٹ پر ڈالنے سے چُوک نہ جائے ۔۔۔ اور’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافرلگی ہوئی‘ کے مصداق دفتر کی یہ عادت گھر پر بھی پیچھا نہیں چھوڑتی۔ یوں لگتا ہے کہ اگر گھر میں ٹیلی ویژن نہ چل رہا ہو تو گویا زندگی میں کوئی کمی سی ہے۔
خبروں کے چینلز پر بریکنگ نیوز کی لال پٹیوں اور خودساختہ ’دانشوروں‘ کے تبصروں اور تجزیوں سے جب دل اُوب جاتا ہے تو میں دوسرے چینلز دیکھنا شروع کرتی ہوں۔ رات کے جس پہر میں ٹی وی دیکھتی ہوں اس وقت پاکستان میں صبح کا سورج طلوع ہونے کے بعد انٹرٹینمنٹ چینلز کی باگ ڈور گویا ’مارننگ شوز‘ کے سپرد چلی جاتی ہے۔ جہاں ’ریٹنگ‘ کی دوڑ میں جیت کے لیے ساس بہو کو لڑانے سے لے کر دلہنوں کو سجانے تک، ڈاکٹروں کے مفت مشوروں سے لے کر عامل بابا بنگالی کی کرامات تک کیا کیا جتن نہیں کیے جاتے؟
اور جب اتنے جتن سے ٹی وی پر اتنے ’دلفریب‘ پروگرام پیش کیے جاتے ہیں تو بھلا ہمیں ہر وقت خشک سیاسی خبروں کے انبار میں غرق رہنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ صحافت اچھی چیز تو ہے مگر بقول شاعر ’لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے‘ ۔۔۔ یہی سوچ کر کل رات میں نے تہیہ کیا کہ خبروں کی سرخیاں دیکھنے کے بعد تفریحی چینلز سے جی بہلایا جائے ۔۔۔ اسے میری بے خبری سے تعبیر کریں یا پھر انٹرٹینمنٹ میں تقریبا نہ ہونے والی دلچسپی کو مورد ِ الزام ٹھہرائیں۔ میں پچھلے کئی سالوں سے پاکستان میں ’مارننگ شوز‘ کی روایت کے باوجود اس ٹرینڈ کو اس طرح سے ’فالو‘ نہیں کر پائی جیسا کہ اس کا ’حق‘ تھا۔ یوں میں ان شوز کے مزاج اور روایات سے بڑی حد تک ناواقف ہوں ۔۔۔
شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ میں آج بھی بنیادی طور پر پی ٹی وی کی ’صبح کی نشیریات‘ کے سحر میں ہی مبتلا ہوں کہ اس یاد کا سرا میرے بچپن سے جا ملتا ہے۔ مجھے یاد ہے سکول جانے کے لیے اماں صبح ساڑھے چھ بچے ہم تینوں بہنوں کو جگاتی تھیں۔ ہم اٹھ کر جلدی جلدی سکول کی تیاری یوں پکڑتے کہ سات بجے ٹی وی پر ہمارے ’چاچاجی‘ (مستنصر حسین تارڑ) نے آنا ہوتا تھا۔ اور وہ صرف ہمارے ہی چاچا جی نہیں تھے بلکہ بقول ان کے وہ پاکستان بھر میں چھ سال سے اسی سال کے سبھی ’بچوں‘ کے چاچا جی تھے۔ سات بجے ’صبح کی نشریات‘ کا آغاز تلاوت ِ کلام ِمجید سے ہوا کرتا تھا۔ جس کے بعد پانچ منٹ کے لیے بچوں کو ورزش سکھائی جاتی تھی۔ اور ہم بہنیں ٹی وی کے سامنے کھڑے ہو کر ساتھ ساتھ یہ ورزش کرتی جاتی تھیں۔ اس کے بعد پانچ منٹ کا وقت کارٹون کے لیے وقف تھا۔ اور کارٹون کے بعد باری ہوتی تھی پانچ منٹ کی خبروں کی۔ ادھر ساڑھے سات بجے خبروں کا میوزک بجتا اور گھر کے باہر ہمارے وین والے باباجی کا ہارن بھی ۔۔۔ اگر آپ نوے کی دہائی میں سکول جاتے تھے تو شاید اس طرح کی مبہم یادیں آپ کے حافظے کی پٹاری میں بھی موجود ہوں۔
بات کہاں سے کہاں جا نکلی۔ ہاں، تو میں بتا رہی تھی ’مارننگ شوز‘ کے بارے میں ۔۔۔ میں نے پہلا چینل لگایا تو خاتون میزبان (جو کسی زمانے میں اداکارہ بھی رہ چکی ہیں) بڑے سے ترازو کے ایک پلڑے میں بیٹھی تھیں۔ ان کے ساتھ ترازو کے دوسرے پلڑے میں ایک اور مہمان اداکارہ بیٹھی تھیں اور دونوں کے درمیان اس بات پر مقابلہ جاری تھا کہ کس کا وزن زیادہ ہے اور کس کا کم؟ حاضرین تالیاں بجا کر اس چُلبلی گفتگو کو داد سے نواز رہے تھے۔
میں نے گھبرا کر دوسرا چینل لگایا تو چمکیلے بھڑکیلے سرخ لباس میں ڈاکٹر میزبان بالکل کسی دلہن کی طرح سجی سنوری کھڑی تھیں۔ ان کے سامنے میز پر شادی کے روز کی مناسبت سے سونے کے زیورات کے دس بارہ ڈبے سجائے گئے تھے۔ اور وہ چند مہمان خواتین کے ساتھ ’حیدر آباد دکن میں دلہن کیسے تیار کی جاتی ہے‘ کے ’پرمغز‘ موضوع پر اظہار ِ خیال کر رہی تھیں۔
انٹرٹینمنٹ کے نام پر اس مظاہرے کے بعد میں نے ایک اور چینل پر سوئچ کیا جسے اس وقت پاکستان میں ڈرامے کے اعتبار سے منفرد مقام حاصل ہے۔ یہاں پر دوسرے چینلز کی روایت سے ہٹ کر ایک مرد فنکار مارننگ شو کی میزبانی سنبھالتے ہیں۔ ان کے شو کی ’تھیم‘ ساس بہو کا رشتہ تھی۔ انہوں نے ایک کامیڈین کو مدعو کر رکھا تھا جو جج کے فرائض سنبھال رہے تھے۔ شو میں دو خواتین پر مشتمل ٹیمیں بنائی گئی تھیں جنہیں آپس میں ساس بہو کی طرح لڑ کر دکھانا تھا۔ کامیڈین حضرت بیچ بیچ میں پھلجڑیاں بھی چھوڑتے جا رہے تھے۔ شو میں شریک خواتین ہنس ہنس کر بے حال ہوئی جا رہی تھیں۔ اللہ رے معصومیت۔
’’یقینا نیوز چینل کا مارننگ شو ان سے مختلف ہوگا‘‘، خود کلامی کرتے ہوئے میں نے ایک نیوز چینل کا رخ کیا۔ جہاں میزبان خاتون (معروف اداکارہ) چند لوگوں کے ساتھ کسی فیکٹری کے ایک چھوٹے سے تنگ و تاریک کمرے میں کھڑی تھیں۔ یہ لوگ انہیں باور کرا رہے تھے کہ فیکڑی پر جنات کا قبضہ ہے اور کوئی ’مائی کا لعل‘رات کے وقت چھت پر جانے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ جس پر ایک بزرگ کا فرمانا تھا کہ وہ یہ چیلنج قبول کرتے ہیں اور نہ صرف رات کے وقت چھت پر جانے کو بلکہ پوری رات وہیں گزارنے کو بھی تیار ہیں۔ خاتون میزبان خوفزدہ دکھائی دینے کی کوشش کر رہی تھیں اور ناظرین سے پوچھ رہی تھیں کہ انہیں دوبارہ وہاں آکر بہادری کا یہ عملی مظاہرہ کرنا چاہیئے کہ نہیں؟ فیکٹری میں جنات کا بسیرا ہے کہ نہیں؟ ۔۔۔ بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچ ہی گئیں کہ انہیں یہ ’کار ِ خیر‘ کر گزرنا چاہیئے۔
اس کے ساتھ ہی میری ہمت جواب دے گئی اور میں نے ٹی وی بند کردیا۔ کاش ٹی وی بند کرنے سے حقیقت بھی بدلی جا سکتی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں ’انٹرٹینمنٹ، انٹرٹینمنٹ اور صرف انٹرٹینمنٹ‘ چاہیئے۔ چینلز کہتے ہیں کہ انہیں ’ریٹنگ‘ چاہیئے۔ چینلز اور عوام کی ترجیحات اور ضروریات کا یہ رشتہ اسی نوعیت کے بے ہنگم، معقولیت سے عاری اور اخلاقی دیوالیہ پن پر مبنی پروگراموں کو ہی جنم دے سکتا ہے۔
میں ’چاچاجی‘ کو یاد کرتے ہوئے سوچنے لگی کہ زمانہ واقعی بدل گیا ہے، جہتیں بدل گئی ہیں اور رواج بدل گئے ہیں۔ کہاں وہ وقت جب ایک ایک لفظ ناپ تول کر ادا کیا جاتا تھا اور کہاں یہ وقت جب ’ریٹنگ‘ کی ’مکروہ‘ دوڑ میں اونچا اڑنے کے لیے لفظوں کو تو کیا اخلاقیات تک کو پامال کیا جا رہا ہے۔
نہ جانے کیوں، دادی جان کے لفظوں پر اب یقین کرنے کو جی چاہنے لگا ہے، ’’مُوا شیطانی ڈبہ‘‘ ۔۔۔