ایرانی حکام نے ایک ممتاز وکیل اور انسانی حقوق کی علم بردار کو اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ میٹرو کے ایک متنازعہ واقعے کے بعد مرنے والی نوعمر لڑکی کی تدفین میں شریک تھیں۔
ان کے شوہر نے پیر کو بتایاکہ 60 سالہ نسرین ستودہ کی گرفتاری اتوار کو تہران میں 17 سالہ ارمیتا گیراوند کی آخری رسومات کے دوران عمل میں آئی، جو ایک ماہ قبل انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہنے کے بعد انتقال کر گئی تھیں۔
ستودہ کو، جنہیں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے پر یورپی پارلیمنٹ کے 2012 کے سخاروف انعام سے نوازا گیا تھا، حالیہ برسوں میں کئی بار گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ستودہ کے شوہر رضا خاندان نے اے ایف پی کو بتایا، "میری اہلیہ کو ارمیتا گیراوند کی آخری رسومات کے دوران دوسروں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا " گرفتاری کے دوران ستودہ کو "پرتشدد طور پر مارا پیٹا گیا"۔
مقامی خبر رساں ایجنسی فارس نے کہا کہ ستودہ کو "سر پر اسکارف نہ پہننے" اور "معاشرے کے ذہنی سکون کو درہم برہم کرنے" کے الزام میں "گرفتار کر کے عدالتی حکام کے حوالے کیا گیا ہے"۔
ایران کے 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد 1983 سے خواتین کے لیے عوام کے درمیان سر اور گردن کو عوامی طور پر ڈھانپنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
اس نوجوان لڑکی کو یکم اکتوبر کو میٹرو پر سوار ہونے کے بعد عہدے داروں سے ایک تنازع کے بعد تہران کے فجر اسپتال لے جایا گیا تھا جس میں وہ کوما میں چلی گئی تھی۔
حکام نے انسانی حقوق کے گروپس کے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا تھاکہ ارمیتا اسلامی ڈریس کوڈ نافذ کرنے والے افسروں کی مار پیٹ کے بعد کوما میں چلی گئی تھی۔
انسانی حقوق کے ایرانی ۔کرد گروپ ہینگوا نے تہران کے ایک اسپتال میں بےہوشی کی حالت میں ارمیتا کی ایک تصویر پوسٹ کی تھی جہاں انہیں داخل کروایا گیا تھا۔
نوبیل انعام یا فتہ ایرانی شخصیت نرگس محمدی نے بھی انسٹا گرام پر ارمیتا گیراوند کی ہلاکت پر تعزیت کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے اپنی پوسٹ میں لکھا ، زندگی سے بھر پور ارمیتا گیراوند کو ان کے خوبصورت بالوں کی وجہ سے موت کے دہانے پر بھیجا گیا تھا ، جنہیں وہ حجاب پہننے کی پابندی کے حکم کی تعمیل میں چھپانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے ہفتے کو رپورٹ دی کہ17 سالہ گیراوند یکم اکتوبر کو جنوبی تہران میں میدان شہدا کے میٹرو اسٹیشن میں ایک سب وے میں داخل ہوتے ہوئے ملک میں نافذ حجاب کے قانون کی خلاف ورزی پر پولیس کےساتھ ایک مبینہ تنازع کے سبب بعد میں انتقال کر گئیں ۔
محمدی نے انسٹاگرام پر اپنی پوسٹ میں گیراوند کی موت سے متعلق رازداری پر تنقید کی ۔
محمدی نے لکھا، کسی غیر جانبدار رپورٹر کو اسپتال میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی ، صرف سرکاری میڈیا سے منسلک رپورٹرز کو ہی اس کی اجازت تھی۔ سرکاری خبر رساں اداروں نے 17 سالہ لڑکی کی موت کا اعلان کیا اور نہ ہی اس کے والدین نے ۔
محمدی نے انسٹاگرام پر اپنی پوسٹ میں گیراوند کی موت سے متعلق رازداری پر تنقید کی ۔
اس رپورٹ کا کچھ حصہ اے ایف پی کی معلومات پر مبنی ہے۔
فورم