ایران نے کہا ہے کہ اس کی چین کے ساتھ معاشی شراکت داری کے 25 سالہ معاہدے پر مشاورت جاری ہے اور رواں ماہ منظرِ عام پر آنے والی معاہدے کی مبینہ تفصیلات محض قیاس آرائیاں ہیں۔
پاکستان میں ایران کے سفیر سید محمد علی حسینی نے رواں ہفتے اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران معاہدے کی ذرائع ابلاغ میں آنے والی تفصیلات کی تردید کرتے ہوئے اسے مغربی ملکوں کا پروپیگنڈا قرار دیا۔
'اسلام آباد پالیسی انسٹی ٹیوٹ' کے زیرِ اہتمام بدھ کو ایک آن لائن فورم میں ایران کے سفیر کا تحریری بیان پڑھ کر سنایا گیا۔
بیان میں ایرانی سفیر کا کہنا تھا کہ چین اور ایران کے درمیان تاحال معاہدے کو حتمی شکل نہیں دی گئی اور اس بارے میں منظرِ عام پر آنے والی خبریں محض افواہیں اور سیاسی مقاصد کے حصول کی کوشش ہے۔
البتہ محمد علی حسینی نے تصدیق کی کہ ایران اور چین مجوزہ معاہدے پر مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اُن کے بقول دونوں ملکوں کے درمیان اسٹرٹیجک تعاون کی بنیاد چین کے صدر شی جن پنگ کے 2016 میں دورۂ ایران کے دوران رکھی گئی تھی۔
ایرانی سفیر کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ سیاسی اور معاشی شعبوں میں دونوں ملکوں کے درمیان برابری اور شفافیت کی بنیاد پر ایک طویل المدتی اور ٹھوس فریم ورک ہو گا۔
خیال رہے کہ رواں ماہ ایران اور چین کے درمیان 400 ارب ڈالر کے مجوزہ اقتصادی معاہدے کی بعض تفصیلات سامنے آئی تھیں جن میں دونوں ملکوں کے درمیان توانائی، انفراسٹرکچر، ٹیلی کمیونی کیشن سمیت دیگر شعبوں میں تعاون پر زور دیا گیا تھا۔
چین کو ایران کا اہم تجارتی پارٹنر سمجھا جاتا ہے اور وہ ایرانی تیل کا سب سے بڑا درآمد کنندہ بھی ہے۔ تاہم 2018 میں ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی اور ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیوں کے نفاذ کے بعد چین اور ایران کے درمیان تجارت بھی متاثر ہوئی تھی۔
چین اور ایران کے درمیان اسٹرٹیجک معاہدے پر کام ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کرونا کی عالمی وبا اور امریکی پابندیوں کے باعث ایران کی اقتصادی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
اقتصادی صورتِ حال کے باعث ایران کے صدر حسن روحانی پر اندرونِ خانہ دباؤ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔
ایران کے کئی سیاست دانوں بشمول سابق صدر محمود احمدی نژاد نے صدر روحانی پر تنقید کی ہے کہ وہ خفیہ طور پر چین کے ساتھ معاہدہ کر کے ملک کی خود مختاری داؤ پر لگا رہے ہیں۔
ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے ان خدشات کو مسترد کرتے ہوئے رواں ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ اس معاہدے میں ایسی کوئی بات نہیں جسے چھپایا جائے۔ ان کے بقول معاہدے کی تفصیلات کو حتمی شکل دیے جانے کے بعد ہی اس کی تفصیلات منظرِ عام پر لائی جائیں گی۔"
چین ایران کے ساتھ اس اقتصادی شراکت داری کے معاہدے کی تصدیق کرتا رہا ہے، لیکن رواں ماہ منظرِ عام پر آنے والی معاہدے کی تفصیلات پر چین نے سرکاری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا تھا۔
چین کے ایک سرکاری تھنک ٹینک 'شنگھائی انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اسٹڈیز' سے منسلک تجزیہ کار جن لیانگ ژانگ نے بدھ کو اسلام آباد میں ہونے والے آن لائن فورم سے خطاب میں کہا کہ بیجنگ اور تہران کے تعلقات میں حالیہ برسوں میں بہتری آئی ہے۔
البتہ اُن کا کہنا تھا کہ ایران کے داخلی معاملات اس 25 سالہ مجوزہ معاہدے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
اُن کے بقول ایران کے لیے سب سے بڑا چیلنج اقتصادی معاہدے کے لیے ملکی سطح پر اتفاقِ رائے قائم کرنا ہے۔