ایرانی حکام نے تصدیق کی ہے کہ ایرانی نژاد ماہر تعلیم فریبا عادل خواہ کو گھر میں نظربندی کے احکامات توڑنے پر دوبارہ گرفتار کر کے جیل میں بند کر دیا گیا ہے۔
عدالتی نیوز ویب سائٹ 'میزان' کی 16 جنوری کی خبر میں جوڈیشری کے نائب سربراہ کاظم غریبا بادی کے حوالے بتایا گیا ہے کہ عادل خواہ نے درجنوں بار عدالتی پابندیوں کی خلاف ورزی کی ہے، جس کا پتہ اس الیکٹرانک کڑے سے چلایا گیا جو ان کے ہاتھوں میں باندھا گیا ہے۔
حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ عدالتی حکام کے بارہا انتباہ کے باوجود، 62 سالہ عادل خواہ نے اپنی نظر بندی کی حدود کی خلاف ورزی کی۔
12 جنوری کو فرانس کی وزارت خارجہ نے عادل خواہ کو دوبارہ جیل میں ڈالنے کے اقدام کی مذمت کی ہے اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ فرانس کی وزارت خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے ان کی گرفتاری سے ایران اور فرانس کے تعلقات پر منفی اثر پڑے گا۔
عادل خواہ ایرانی اور فرانسیسی پاسپورٹ رکھتی ہیں، مگر ایران دوہری شہریت کو تسلیم نہیں کرتا۔ ایرانی حکام کا اصرار ہے کہ عادل خواہ ایرانی شہری ہیں اور اسی بنیاد پر فرانس کے قونصل خانے کے سٹاف کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
عادل خواہ اسلام اور شیعہ مسلک کی اسکالر ہیں اور فرانس کے پیرس انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹکل سائنس میں کام کرتی ہیں۔ انہیں پانچ جون 2019 کو تہران ایئر پورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں قومی سلامتی کے خلاف سازش کے جرم میں پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ایرانی حکام نے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیے تھے۔
اکتوبر 2020 میں انہیں جیل سے نکال کر تہران میں ان کی بہن کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔
باور کیا جاتا ہے کہ عادل خواہ ان درجنوں مغربی شہریوں میں سے ایک ہیں، جو ایران میں گرفتار کیے گئے ہیں۔
انسانی حقوق کے اداروں کا خیال ہے کہ ایران ان غیر ملکی قیدیوں کو رقم بٹورنے کی غرض سے سودے بازی یا مغرب سے مذاکرات میں فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایران اس کی تردید کرتا ہے، ہر چند کہ وہ ماضی میں ایرانی قیدیوں کا تبادلہ کر چکا ہے۔
مارچ 2020 میں ایران عادل خواہ کے فرانسیسی ساتھی اور شراکت کار رولینڈ مارشل کو قیدی کے تبادلے کے تحت رہا کیا تھا۔ مارشل کو عادل خواہ کے ساتھ ہی گرفتار کیا گیا اور پھر ایرانی انجینئر جلال روح اللہ نژاد کی رہائی کے عوض انہیں واپس کیا گیا۔
(خبر کا مواد اے ایف پی اور اے پی سے لیا گیا)