اسرائیل نے ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر تہران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بنا ہے، جب کہ خلیج میں ایران کی سب بڑی مخالف ریاست سعودی عرب کی جانب سے اس پر خاموشی دیکھنے میں آئی ہے۔
جینوا میں اتوار کو ہونے والے معاہدے کے تحت ایران کو یورینیم افژودگی کے عمل کو محدود اور اپنے ری ایکٹر کی تعمیر روکنا ہو گی۔ جس کے بدلے امریکہ اور دوسری بڑی قوتیں تہران پر عائد اقتصادی تعزیرات میں نرمی کا علان کریں گے۔
تل ابیب اور ریاض کو ہمیشہ سے یہ خوف رہا ہے کہ تہران اپنی جوہری سرگرمیوں کی مدد سے ایٹمی ہتھیار تیار کر لے گا جو کہ ان کے مفادات کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کابینہ سے خطاب میں کہا کہ یہ معاہدے ایک ’’تاریخی غلطی‘‘ ہے ’’جس سے دنیا مزید خطرناک جگہ بن گئی‘‘ ہے۔ تل ابیب تہران کے خلاف مزید تعزیرات اور اس کی جوہری تنصیبات کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے۔
مسٹر نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اسرائیل ’’ایران کو کبھی جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دے گا‘‘۔
سعودی عرب، قطر اور کویت کے حکمرانوں نے ہفتہ کو اس وقت ملاقات کی جب عالمی طاقتیں جینوا میں ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کو حتمی شکل دے رہی تھیں۔ ان میں سے کسی خلیجی ریاست نے تاحال اس معاہدے پر تبصرہ نہیں کیا ہے۔
لیکن ماضی میں ان کے رہنماوں کی طرف سے اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ تہران اس طرح خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔
خلیجی ریاست بحرین اور متحدہ عرب امارات نے ایرانی جوہری پروگرام پر ہونے والے معاہدے کا خیر مقدم کیا۔ متحدہ عرب امارات نے امید کا اظہار کیا کہ اس سے خطے میں استحکام آئے گا اور اسے جوہری پھیلاؤ سے محفوظ کرے گا جبکہ بحرین کا کہنا تھا کہ خطے میں پائے جانے والے ’’خوف‘‘ کا خاتمہ ہوگا۔
ایران کے ہمسایہ ممالک عراق اور شام نے بھی اس معاہدے کو سراہا ہے۔ بغداد نے اسے خطے کے مسائل کے حل کی طرف پہلا قدم گردانا جبکہ بشارالاسد حکومت کا کہنا تھا کہ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ تنازع کا بہترین حل مذاکرات ہیں۔
فلسطین کے صدر محمود عباس کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے ’’اسرائیل کو ایک اہم ہیغام گیا ہے کہ وہ اس بات کا احساس کرے کہ مشرق وسطیٰ میں صرف امن واحد راستہ ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اس معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ ’’اس حوصلہ افزاء شروعات پر پیش رفت کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں۔‘‘
اُدھر امریکہ کے صدر براک اوباما نے اتوار اسرائیل کے وزیراعظم بینجیمن نیتن یاہو سے ٹیلی فون پر بات کی اور اُنھیں یقین دلایا کہ اس مسئلے پر بھی واشنگٹن اسرائیل کے ساتھ قریبی مشاورت پر پرعزم ہے۔
اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی کہا تھا کہ کہ ایران کے ساتھ اُس کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدہ خوش آئند ہے اور اس سے تہران کے جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت میں کمی آئے گی۔
جان کیری کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر پُرامن اور حتمی معاہدے کی جانب یہ پہلا قدم ہے۔
جینوا میں اتوار کو ہونے والے معاہدے کے تحت ایران کو یورینیم افژودگی کے عمل کو محدود اور اپنے ری ایکٹر کی تعمیر روکنا ہو گی۔ جس کے بدلے امریکہ اور دوسری بڑی قوتیں تہران پر عائد اقتصادی تعزیرات میں نرمی کا علان کریں گے۔
تل ابیب اور ریاض کو ہمیشہ سے یہ خوف رہا ہے کہ تہران اپنی جوہری سرگرمیوں کی مدد سے ایٹمی ہتھیار تیار کر لے گا جو کہ ان کے مفادات کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کابینہ سے خطاب میں کہا کہ یہ معاہدے ایک ’’تاریخی غلطی‘‘ ہے ’’جس سے دنیا مزید خطرناک جگہ بن گئی‘‘ ہے۔ تل ابیب تہران کے خلاف مزید تعزیرات اور اس کی جوہری تنصیبات کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے۔
مسٹر نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اسرائیل ’’ایران کو کبھی جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دے گا‘‘۔
سعودی عرب، قطر اور کویت کے حکمرانوں نے ہفتہ کو اس وقت ملاقات کی جب عالمی طاقتیں جینوا میں ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کو حتمی شکل دے رہی تھیں۔ ان میں سے کسی خلیجی ریاست نے تاحال اس معاہدے پر تبصرہ نہیں کیا ہے۔
لیکن ماضی میں ان کے رہنماوں کی طرف سے اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ تہران اس طرح خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔
خلیجی ریاست بحرین اور متحدہ عرب امارات نے ایرانی جوہری پروگرام پر ہونے والے معاہدے کا خیر مقدم کیا۔ متحدہ عرب امارات نے امید کا اظہار کیا کہ اس سے خطے میں استحکام آئے گا اور اسے جوہری پھیلاؤ سے محفوظ کرے گا جبکہ بحرین کا کہنا تھا کہ خطے میں پائے جانے والے ’’خوف‘‘ کا خاتمہ ہوگا۔
ایران کے ہمسایہ ممالک عراق اور شام نے بھی اس معاہدے کو سراہا ہے۔ بغداد نے اسے خطے کے مسائل کے حل کی طرف پہلا قدم گردانا جبکہ بشارالاسد حکومت کا کہنا تھا کہ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ تنازع کا بہترین حل مذاکرات ہیں۔
فلسطین کے صدر محمود عباس کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے ’’اسرائیل کو ایک اہم ہیغام گیا ہے کہ وہ اس بات کا احساس کرے کہ مشرق وسطیٰ میں صرف امن واحد راستہ ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اس معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ ’’اس حوصلہ افزاء شروعات پر پیش رفت کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں۔‘‘
اُدھر امریکہ کے صدر براک اوباما نے اتوار اسرائیل کے وزیراعظم بینجیمن نیتن یاہو سے ٹیلی فون پر بات کی اور اُنھیں یقین دلایا کہ اس مسئلے پر بھی واشنگٹن اسرائیل کے ساتھ قریبی مشاورت پر پرعزم ہے۔
اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی کہا تھا کہ کہ ایران کے ساتھ اُس کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدہ خوش آئند ہے اور اس سے تہران کے جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت میں کمی آئے گی۔
جان کیری کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر پُرامن اور حتمی معاہدے کی جانب یہ پہلا قدم ہے۔