ایران کی پارلیمان کے اسپیکر علی لاریجانی نے کہا ہے کہ اگر یورپی قوتیں 2015 کے جوہری معاہدے میں تنازع کے طریقہ کار کا "غیر منصفانہ" اقدام اختیار کریں گی تو تہران بھی بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ اپنے تعاون پر سنجیدگی سے غور کرے گا۔
علی لاریجانی ایران کی جانب سے جوہری مذاکرات کے سابق سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔
ایران کے سرکاری ٹی وی پر ان کا ایک بیان نشر کیا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ ایران کے جوہری تنازع سے متعلق جو تین یورپی ملکوں نے کیا، وہ بدقسمتی ہے۔
خیال رہے کہ جرمنی، برطانیہ اور فرانس نے گزشتہ ہفتے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ایران سے 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے کے تحت تنازع کے طریقہ کار 'ڈسپیوٹ مکینزم' کا استعمال کریں گے۔
فرانس، برطانیہ اور جرمنی کا یہ اقدام ایران پر جوہری معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کا باضابطہ الزام لگانے کے مترادف ہے۔ یہ اقدام ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ نافذ کیے جانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
'ڈسپیوٹ مکینزم' کے تحت ایک جوائنٹ کمیشن بنایا جائے گا جس کے ارکان ایران، روس، چین، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور یورپی یونین ہوں گے جو تنازع کے حل کی کوششیں کریں گے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق علی لاریجانی نے کہا ہے کہ ہم یہ واضح کر رہے ہیں کہ اگر یورپ کسی بھی وجہ سے جوہری معاہدے کے آرٹیکل 37 (ڈسپیوٹ مکینزم) کا "غیر منصفانہ" استعمال کرتا ہے تو ایران بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) سے تعاون سے متعلق کوئی سنجیدہ اقدام کرنے پر مجبور ہو گا۔
واضح رہے کہ ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی حملے میں ہلاکت کے بعد ایران نے کہا تھا کہ وہ یورینیم کی محدود افزودگی سے متعلق شرائط ترک کر دے گا۔ لیکن اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے 'آئی اے ای اے' سے تعاون جاری رکھے گا۔
ایران اور عالمی قوتوں کے درمیان 2015 میں ایک جوہری معاہدہ تشکیل پایا تھا جس میں تہران نے اپنا جوہری پروگرام محدود کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ اس معاہدے کے تحت ایران پر اقوامِ متحدہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں اٹھا لی گئیں تھیں۔
امریکہ کی جانب سے 2018 میں جوہری معاہدے سے دست برداری کے بعد ایران جوہری مادّوں کی افزودگی میں اپنی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کر رہا ہے جس کے باعث امریکہ نے ایران پر پابندیاں بھی عائد کی ہیں۔