رسائی کے لنکس

ایران پرنئی پابندیاں کتنی مؤثر


گذشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے ایران پر نئی پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد امریکہ میں ان پابندیوں کے مؤثر ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے جاری بحث کے ساتھ ساتھ اس معاملے پر بھی گفتگو ہورہی ہے کہ کیا پابندیاں لگانا ہی مؤثر حکمتِ عملی ہے۔ اس کے حق اور مخالفت دونوں میں دلائل دیئے جارہے ہیں۔

ایران صرف صدر اوباما ہی نہیں بلکہ ان سے قبل تقریباً پانچ امریکی صدور کے لیے بھی خارجہ پالیسی میں ایک چیلنج رہا ہے۔ بلکہ ایک سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے حوالے سے تو بہت سے مورخین کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران میں امریکی سفارتکاروں کو یرغمال بنائے جانے کے معاملے پرمؤثر انداز میں جواب نہ دینا بھی 1980 ءکے صدراتی انتخاب میں ان کی شکست کی وجوہات میں سے ایک تھا۔ حالیہ برسوں میں ایران امریکہ تعلقات میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ ایران کا نیوکلیئر پروگرام ہے جس پر اعتراض کرتے ہوئے امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام سے عالمی امن کو خطر ہ ہے کیونکہ وہ، امریکہ کے بقول، دہشت گرد گروپس کی پشت پناہی کرتا ہے اوراسکا نیوکلیئر طاقت بن جانا ایک خطرناک صورتحال کو جنم دے گا۔ لیکن ایران کا موقف ہے کہ اسکا پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور اس پروگرام کے ذریعے وہ خود انحصاری حاصل کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ اور اسکے مغربی اتحادیوں کی جانب سے تنقید اور بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود ایران یورنیم کی افزودگی کررہا ہے۔

گذشتہ ہفتے امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے سامنے ایک سماعت کے دوران امریکہ کے نائب وزیرِ خارجہ ولیم برنز نے کہا کہ ایران کو زیادہ ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پرامن مقاصد کے لیے توانائی کے حصول کے ایران کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن اپنے حق کے ساتھ ساتھ ایران کو اس ذمہ داری کا احساس بھی ہونا چاہیےکہ اس بین الاقوامی برادری کو یہ یقین دلانا ہے کہ اسکا نیوکلیئر پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

سماعت کے دوران بعض سینیٹرز جیسے کہ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر رابرٹ مینڈیز اور ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جیمز رچ، نے اس بات پر زور دیا کہ ایران کے خلاف لگائی جانے والی پابندیاں اسے اسکے نیوکلیئر عزائم سے باز رکھنے کے لیے موثر ثابت ہونی چاہیں۔ جہاں ایک طرف امریکی سینیٹرز ایران کے معاملے پر اس سخت رویے کے حامی نظر آتے ہیں وہیں بعض تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ ایران کو اپنے ذمہ دارنہ رویے کی وجہ سے غیر جانبدار ممالک میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

مارک ہبس کا کہنا ہے کہ یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ ایران کو بین الاقوامی سطح پر مکمل طور پر تنہا کیا جاسکتا ہے کیونکہ کچھ تحفظات کے باوجود غیر جانبدار ممالک میں ایران کے رویے پر منفی تاثر نہیں پایا جاتا اور اسے احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

امریکی کانگریس میں قانون سازوں کی ایک بڑی تعداد اس بات کے حق میں ہے کہ ایران کے نیوکلیرپروگرام کے خلاف امریکہ کو سخت سے سخت پابندیاں عائد کرنی چاہیں جبکہ ایران کی حمائت کرنے والے ممالک اس حکمتِ عملی سے متفق نہیں ہیں۔ لیکن ا یران کے معاملے پر غیر جانبدار رائے رکھنے والے مبصرین کے مطابق محض پابندیاں یا مکمل طور پر لچکدار رویے کی انتہاوں کے درمیان کی حکتِ عملی ایران کے نیوکلیر پروگرام کے معاملے پر حقیقت پسندانہ روش ہوسکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG