اطلاعات کے مطابق ایران کو شمالی کوریا سے محدود تعداد میں BM-25 مزائل ملے ہیں۔ لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ ایران ان سے کیا کام لینا چاہتا ہے ۔ ایران کے عزائم کے بارے میں مغربی ملکوں کے تجزیہ کاروں کے درمیان اتفاقِ رائے نہیں۔
اطلاعات کے مطابق شمالی کوریا نے ایران کو درمیانے فاصلے کے BM-25قسم کے 19 مزائل فراہم کیئے ہیں۔ اس طرح مغربی ملکوں میں ایران کے فوجی اور شاید نیوکلیئر عزائم کے بارے میں جو بحث جاری ہے ، اس میں ایک اور عنصر شامل ہو گیا ہے ۔ تاہم تجزیہ کار اس پر متفق نہیں ہیں کہ ایران اس مزائل سے جو ایک پرانے روسی ڈزائن کی طرز پر تیار کیا گیا ہے ، کیا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لندن میں قائم انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرٹیجک اسٹڈیز کے تجزیہ کار مائیکل ایلی مین کہتے ہیں کہ یہ مزائل پہلی بار حال ہی میں منظر ِ عام پر آیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ BM-25 کا ایک ورژن گذشتہ مہینے پیانگ یانگ میں ہونے والی پیریڈ میں شامل تھا۔ اس سے ہمیں اس کے بارے میں خاصی معلومات ملیں ۔ لیکن اب تک اس کی کوئی آزمائش نہیں ہوئی ہے۔
تجزیہ کاروں کے درمیان اس مزائل کے وجود کے بارے میں بھی مکمل اتفاق رائے نہیں ہے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ شمالی کوریا نے اصل مزائل کے بجائے نمائش کے لیئے مزائل کی ایک نقل کو پیریڈ میں شامل کر دیا تھا۔
ایوی ایشن ویک اینڈ سپیس ٹکنالوجی نامی میگزین نے ایران کی طرف سے BM-25 کے حصول پر کڑی نظر رکھی ہے۔ اس میگزین کو دنیا بھر میں ہوا بازی اور خلا کی صنعت سے متعلق لوگ اور سرکاری حلقے دونوں بہت غور سے پڑھتے ہیں۔ میگزین کے سینیئر ملٹری ایڈیٹر، ڈیوڈ فلگوم نے 14 اکتوبر کو BM-25 کے بارے میں ایک مضمون شائع کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کی ایک حکومت نے انہیں اس مزائل کے بارے میں اہم معلومات فراہم کیں۔ ان کا کہناتھا کہ اس مزائل کے بارے میں پہلی بار میں نے چھہ مہینے پہلے اسرائیلیوں سے سنا تھا ۔ اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ مزائل مکمل حالت میں ایران کو پہنچا دیے گئے ہیں۔
انہوں نے اپنے مضمون میں مزید لکھا ہے کہ BM-25 تین سے چار ہزار کلو میٹر تک جا سکتا ہے اور اسے ایک متحرک لانچر کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جاتا ہے۔مغرب میں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس مزائل سے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں کے لیئے ایک اور خطرہ پیدا ہو سکتا ہے ۔ لیکن فلگوم کا خیال ہے کہ ایران BM-25 کو جنگی کارروائیوں میں نہیں بلکہ ریسرچ کے لیئے استعمال کرنا چاہتا ہے ۔
مغربی ملکوں میں بہت سے لوگوں کی توجہ اس امکان پر ہے کہ BM-25 اس لیئے حاصل کیا گیا ہے تا کہ ایران جنگ کے لیئے ہتھیار بنا سکے، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز کے مائیکل ایلی مین کہتے ہیں کہ ایران اسے اپنے خلائی پروگرام میں استعمال کرنا چاہتا ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ برسوں سے، یہ بات معلوم تھی کہ شمالی کوریا ایران کو مشینیں اور ٹکنالوجی فراہم کر رہا ہے تا کہ ایران اپنے فوجی اور خلائی پروگراموں میں تیزی سے ترقی کر سکے۔ لیکن اب بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تہران اب ان میں سے کچھ شعبوں میں خود پہل کر رہا ہے ۔ ایوی ایشن ویک کے فلگوم بتاتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کیا تبدیلی آئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ایران کے پاس ریسرچ اور ترقی کے لیئے نسبتاً زیادہ پیسہ اور زیادہ آزادی ہے ۔ اس کام کے لیئے جو سامان چاہیئے وہ شمالی کوریا کے مقابلے میں ،ایران کو زیادہ آسانی سے دستیاب ہے ۔ شمالی کوریا کو چینیوں پر بہت زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے ۔ چینیوں پر ہماری طرف سے بہت زیادہ دباؤ پڑ رہا ہے کہ وہ بعض اقسام کی ٹکنالوجی شمالی کوریا کو بر آمد نہ کریں۔
مائیکل ایلی مین اور ڈیوڈ فلگوم اور ایران کے مزائل پروگرام پر نظر رکھنے والے دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ اس شعبے میں تحقیق کوئی بھی کرے، اس کے نتائج کو خفیہ رکھنا مشکل ہو گا۔
مزائلوں کو ٹیسٹ کرنے کے لیئے لانچ کرنا پڑتا ہے ، اور جب انہیں چھوڑا جاتا ہے تو دوسرے ملک ان کا سراغ لگا لیتے ہیں تا کہ یہ معلوم کر سکیں کہ ان کی کارکردگی کیسی ہے، اور وہ دوسرے ملکوں کے لیئے کس حد تک خطرہ بن سکتے ہیں۔