مغربی دنیا کے نیوکلیئر ماہرین کی اطلاعات کے مطابق ایران کے نیوکلیئر پروگرام میں رکاوٹیں پڑ رہی ہیں کیوں اس میں استعمال ہونے والی مشینوں کی کارکردگی اچھی نہیں ہے ۔ تاہم، ماہرین کے خیال میں، ایران کے پاس اتنی صلاحیت موجود ہے کہ اگر وہ چاہے تو تقریباً چھہ مہینوں میں ایک نیوکلیئر بم تیار کر سکتا ہے ۔ لیکن خیال اب بھی یہی ہے کہ ایران کی قیادت نے یہ حتمی قدم اٹھانے کے بارے میں اب تک آخری فیصلہ نہیں کیا ہے ۔
نئے تحقیقی مطالعوں میں کہا گیا ہے کہ ایران افزودہ شدہ یورینیم تیار کرنے کے لیے جو سینٹریفیوج استعمال کرتا ہے، ان کی کارکردگی اچھی نہیں ہے ۔ انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سکیورٹی یا آئی ایس آئی ایس نے کہا ہے کہ ناتانزمیں افژودگی کے پلانٹ میں بہت سی مشینیں بہت پرانی ہو گئی ہیں اور بار بار خراب ہو جاتی ہیں۔
آئی ایس آئی ایس کے صدر ڈیوڈ البرائٹ یہ رپورٹیں تحریر کرنے والوں کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مشینوں میں جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی پابندیاں اور خفیہ کارروائیاں، جیسے اسٹکسنیٹ کمپیوٹر وائرس ، ایران کے نیوکلیئر پروگرام کی پیش رفت کو روکنے میں موئثر ثابت ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ‘‘اہم نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نیوکلیئر پروگرام کے خلاف پابندیوں سے ایران کی ترقی میں کافی تاخیر ہو سکتی ہے ۔ پابندیوں سے ہم اسے بم بنانے سے یا ایسا فیصلہ کرنے سے روک تو نہیں سکتے، لیکن اس کی رفتار کو کم ضرور کر سکتے ہیں اور اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر سکتے ہیں ۔ اس طرح ایران کے لیے وہ خام مال حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے جو بڑی تعداد میں سینٹریفیوجزبنانے کے لیے ضروری ہے۔’’
سینٹریفیوجز یورینیم کو خالص اور افژودہ کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ کم درجے کا افژودہ شدہ یورینیم نیوکلیئر بجلی گھروں کے لیے کافی ہوتا ہے، لیکن نیوکلیئر ہتھیاروں کے لیے اسے بہت اعلیٰ درجے تک افژودہ کرنا ضروری ہے ۔ البرائٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان میں سے بہت مشینوں کو اسٹکسنیٹ کمپیوٹر وائرس سے نقصان پہنچا تھا یا وہ تباہ ہو گئی تھیں ۔ ایران بہتر سینٹری فیوجزنصب کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے اسے دشواری پیش آ رہی ہے ۔
ایران نے کہا ہے کہ اس کا نیوکلیئر ہتھیار حاصل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ اس کا اصرار ہے کہ وہ نیوکلیئر پاور صرف پُر امن مقاصد کے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے ۔
البرائٹ کہتے ہیں کہ بہر حال ، ایران کے پاس اتنے سینٹری فیوجزتو ہیں کہ وہ اتنی مقدار میں خالص یورینیم حاصل کر لے جو ایک نیوکلیئر بم بنانے کے لیے کافی ہو، بشرطیکہ کہ وہ بم بنانے کا فیصلہ کر لے ۔
امریکی انٹیلی جنس کا اندازہ ہے کہ ایران کے پاس نیوکلیئر بم بنانے کی ٹیکنیکل صلاحیت تو ہو سکتی ہے، اگرچہ وہ اسے ہدف پر پہنچانے کا نظام تیار نہیں کر سکتا ۔ لیکن تہران نے ابھی اس حد تک جانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے ۔
ڈیوڈ البرائٹ کہتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی متفق ہیں کہ اب تک صورتِ حال یہی ہے لیکن ان کے درمیان اس نکتے پر کچھ اختلاف ہے کہ نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری پر ریسرچ میں ایران نے کتنی پیش رفت کی ہے ۔ ان کے مطابق ‘‘لیکن وہ سب متفق ہیں کہ ایران نے نیوکلیئر ہتھیار بنانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے اور یہ کہ صورتِ حال واضح نہیں ہے کیوں کہ میرے خیال میں ایرانی حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر وہ جلد ہی بم نہیں بنا سکتی، اور اس کے پاس ایک سے زیادہ بم بنانے کا منصوبہ نہیں ہے، تو پھر اس کے لیے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں اور حکومت کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے ۔’’
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، اولی ہینونن کہتے ہیں کہ اس بارے میں تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے کہ ایران کمتر درجے کا افژودہ شدہ یورینیم کاذخیرہ جمع کر رہا ہے، اور اس کا ارادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسے ہتھیاروں کے گریڈ کے یورینیم میں تبدیل کر لیا جائے ۔ انھوں نے کہا کہ ‘‘وقت کے ساتھ ساتھ اگر ایران بم بنانے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے پاس کافی میٹیریل ہوگا۔ میرے خیال میں اگلے سال کے آخر تک، اس کے پاس کم تر درجے کے یورینیم کی کافی مقدار جمع ہو چکی ہوگی۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس پر بہت سے ملکوں کو تشویش ہوگی۔’’
لیکن ہینونن یہ بات مانتے ہیں کہ ایران کی طرف سے ابھی کوئی ایسا واضح اشارہ نہیں ملا ہے کہ اس نے نیوکلیئر سرخ لائن پار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں میرے خیال میں کسی کے پاس ایسا کوئی حقیقی ثبوت نہیں کہ ایران نے نیوکلیئر ہتھیار بنانے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے ۔ دوسری طرف،اگر ایسا کوئی فیصلہ ہو ا، تو اس میں بہت سے لوگ شامل نہیں ہوں گے، اور اس کا پتہ چلانا بہت مشکل ہو گا، اور شاید اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی ایران کے بارے میں اپنی نئی سہ ماہی رپورٹ اگلے مہینے جاری کرے گی۔