شمالی جاپان میں گیارہ مارچ کے زلزلے اور سونامی سے فوکوشیما کے نیوکلیئر پاور پلانٹ کو شدید نقصان پہنچا ۔ اس کے کولنگ پمپ اور دوسرے حفاظتی نظام بیکار ہو گئے۔ چند دنوں کے اندر ہی، تین عمارتوں میں، جن میں نیوکلیئر ری ایکٹرز نصب تھے، زبردست دھماکے ہوئے اور تابکاری خارج ہونے لگی۔
جاپان میں عام طور سے زلزلے آتے رہتے ہیں۔ اس کی نیوکلیئر پاور انڈسٹری کا کہنا ہے کہ پلانٹس کےڈیزائن میں زلزلوں سے حفاظت کو مد نظر رکھا گیا تھا۔ لیکن حالیہ واقعات سے پتہ چلا ہے کہ کبھی کبھی انسان کے بنائے ہوئے بہترین منصوبے بھی قدرت کی طاقت کے سامنے دھرے رہ جاتے ہیں۔ آدھی دنیا دور، ایک اور ملک، ایران بھی زلزلوں کے لیئے مشہور ہے۔ گذشتہ برسوں میں، خوفناک زلزلوں میں وہاں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اب ایران نیوکلیئر دور میں داخل ہو رہا ہے ۔اس کا پہلا نیوکلیئر پاور پلانٹ، جو خلیج فارس کے ساحل پر بوشہر میں واقع ہے، مکمل ہو گیا ہے اور جلد ہی کام شروع کردے گا۔
بوشہر کی تعمیر 1974 میں شروع ہوئی تھی لیکن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد اس پر کام رک گیا۔ ایران اور عراق کی آٹھ سالہ جنگ میں، اس پلانٹ پر حملہ ہوا اور اسے نقصان پہنچا۔ 1995 میں تعمیر دوبارہ شروع ہوئی جب روسیوں نے جرمن کمپنی سیمنس سے یہ کام لے لیا۔
یونیورسٹی آف سدرن کیلے فورنیا میں انجینیئرنگ کے پروفیسر محمد صاحیمی کہتے ہیں کہ پلانٹ کے مقام کا انتخاب کرتے وقت، زلزلے کے خطرے پر احتیاط سے غور کیا گیا تھا۔’’ایران کی اٹامک انرجی آرگنائیزیشن نے سب سے پہلے زلزلوں کے خطرے کو سامنے رکھ کرنیوکلیئر سیفٹی کے نقطۂ نظر سے وسیع پیمانے پر ریسرچ کی۔ عام طور سے نیوکلیئر ری ایکٹر ایسے علاقے میں تعمیر کیا جاتا ہے جہاں بڑے زلزلوں کا امکان بہت کم ہوتا ہے ۔ جہاں تک مجھے علم ہے، جنوبی ایران کے اس علاقے میں جہاں بو شہر ری ایکٹر تعمیر کیا گیا ہے، کوئی بڑی متحرک دراڑ یعنی ایکٹو فالٹ لائن نہیں ہے۔‘‘
بوشہر میں روسی ساخت کے سنگل VVER –1000 ری ایکٹر میں 1000 میگا واٹس بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے اور یہ مغربی ملکوں میں لگے ہوئے ری ایکٹرز جیسا ہی ہے ۔ نیو یارک میں حکومت کی بروک ہیون نیشنل لیباریٹری کے سینیئر نیوکلیئر سائنسدان اوپندرا روہتگی اس قسم کے ری ایکٹر سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’VVER –1000 ری ایکٹر جدید ترین روسی ڈیزائن ہے جو مغربی ملکوں کے pressurized water reactors کے ہم پلہ ہے ۔ ان سب میں ایک جیسے حفاظتی نظام لگے ہوئے ہیں اور یہ سب نہایت اعلیٰ containment system سے لیس ہیں۔‘‘
بوشہر کے ری ایکٹر کا ڈیزائن اس پرانے طرز کے ری ایکٹرز سے بالکل مختلف ہے جو چرنوبل، یوکرین میں 1986 میں پھٹا تھا۔ چرنوبل کے ری ایکٹر کے بر خلاف، ایرانی ری ایکٹر پوری طرح کنکریٹ اور فولاد کے containment vessel میں بند ہے۔ containment vessel کا مقصد یہ ہے کہ کسی حادثے کی صورت میں تابکاری باہر نہ نکلے اور ماحول کو آلودہ نہ کرے۔ اس میں حفاظت کی خاطر کئی تہیں ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ اتنا مضبوط ہے کہ کسی بھی ٹکراؤ یا اندر یا باہر کے دھماکے سے اس کا ڈھانچہ متاثر نہیں ہوتا۔
جاپان کے فوکوشیما نیوکلیئر پلانٹ کے ڈیزائن میں بھی اسی قسم کی کئی تہیں ہیں۔ لیکن اندیشہ یہ ہے کہ اس ڈیزائن کے باوجود، کم از کم ایک ری ایکٹر کے containment vessel میں شگاف پڑ گیا ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اسی وجہ سے کچھ تابکاری نکل کر ماحول میں داخل ہو گئی ہے ۔
اس سلسلے کے اگلے پروگرام میں بو شہر سمیت نیوکلیئر پلانٹ میں کام کرنے والے لوگوں کی تربیت اور ان کی سلامتی کے بارے میں بات کی جائے گی۔