مارچ میں جاپان کے فوکوشیما۔ڈائچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کے حادثے سے یورپ میں ایک عرصے سے جاری یہ بحث پھر زور پکڑ گئی ہے کہ نیوکلیئر توانائی پر آنے والے اخراجات ، اس کے فاضل مادوں، اور خاص طور سے اس کے خطرات کو دیکھتے ہوئے، کیا اس کا استعمال مناسب ہے۔ جب جاپان نے گذشتہ ہفتے فوکوشیما کے حادثے کی شدت 7 تک بڑھادی اور اسے 1986 میں، یوکرین میں چرنوبل کے حادثے کے برابر قرار دے دیا ، جو دنیا کی بد ترین نیوکلیئر تباہی تھی، تو یورپ میں کھلبلی مچ گئی۔
یہ بحث جتنی اہم فرانس کے لیئے ہے ، کسی اور ملک کے لیئے نہیں۔ فرانس بہت زیادہ نیوکلیئر ٹیکنالوجی برآمد کر تا ہے اور امریکہ کے بعد نیوکلیئر توانائی استعمال کرنے والا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے ۔ فرانس کے 58 نیوکلیئر پاور پلانٹس ملک کی تقریباً 80 فیصد بجلی پیدا کرتے ہیں۔ فوکوشیما کے حادثے سے فرانس کی نیوکلیئر توانائی کی حمایت میں کمی نہیں آئی ہے ۔
جاپان کے حالیہ دورے میں فرانس کے صدر نکولاسارکوزی نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ نیوکلیئر پاور کے محفوظ ہونے کو یقینی بنایا جائے ۔ انھوں نے پوچھا کہ اگر نیوکلیئر پلانٹس ختم کر دیے جاتےہیں، تو ہم ان کے بجائے کہاں سے توانائی حاصل کریں گے؟
دوسری طرف یورپی یونین نے اعلان کیا ہے کہ وہ علاقے کے 143 نیوکلیئر ری ایکٹرز کی جانچ کرے گی۔ یورپی کمیشن کے صدر جوس مینوئیل باروسو نے کہا ہے کہ اس سال کے آخر تک تمام سٹریس ٹیسٹس مکمل کر لیے جانے چاہیئں۔’’جاپان کے خوفناک حالات سے ہماری یاد دہانی ہوئی ہے کہ اگرچہ یورپی یونین کے حالات کے بارے میں ہمارے خیالات بہت مختلف ہیں، لیکن ہمیں نیوکلیئر سیفٹی کے بارے میں متحد ہونا چاہیئے ۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیئے کہ نیوکلیئر سیفٹی کے اعلیٰ ترین معیاروں پر عمل کیا جائے۔‘‘
پیرس میں قائم Areva کا شمار دنیا کی سب سے بڑی نیوکلیئر ری ایکٹرز بنانے والی کمپنیوں میں ہوتا ہے ۔ ہم نے اس کمپنی کے کنسلٹنٹ برنارڈ بری سے پوچھا کہ کیا نیوکلیئر پاور اسٹیشن محفوظ ہیں۔ انھوں نے جواب دیا۔’’اس سوال کا کوئی سیدھا سادھا جواب نہیں ہے ۔ کیاہم وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو نیوکلیئر پاور کو محفوظ بنانے کے لیئے ضروری ہے؟ اس کا جواب ہے کہ ہاں، ہم جب جینیریشن III کے ری ایکٹرز استعمال میں لانے والے ہیں، تو ہم نیوکلیئر پلانٹس کو زیادہ محفوظ بنانے کے لیئے بہت سے نئے اقدامات کر رہے ہیں۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ جینیریشن III کے ری ایکٹرز میں جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔ تھیوری میں ان کی ساخت ایسی ہے کہ وہ دہشت گردوں کے حملوں اور سونامی اور زلزلے جیسی قدرتی آفات کو برداشت کر سکتےہیں۔ فوکوشیما میں جو ری ایکٹر سونامی اور زلزلے سے متاثر ہوا، وہ پرانے ماڈل کا تھا۔
نیوکلیئر توانائی کے مخالفین اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتے۔ صوفیہ مجنونی فرانس میں ماحولیاتی گروپ گرین پیس میں نیوکلیئر امور کی انچارج ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’فوکوشیما کے حادثے سے یورپ کو جو پہلا سبق سیکھنا چاہیئے وہ یہ ہے کہ محفوظ نیوکلیئر ری ایکٹر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ دنیا میں کہیں بھی ، کسی بھی ری ایکٹر میں حادثہ ہو سکتا ہے۔‘‘
مجنونی اس طرف بھی توجہ دلاتی ہیں کہ جینیرشن III کے جدید ترین نیوکلیئر ری ایکٹرز نے ابھی کہیں کام شروع نہیں کیا ہے۔ لہٰذا کوئی نہیں جانتا کہ وہ کتنے محفوظ ہوں گے۔
یورپی حکومتوں میں نیوکلیئر پاور کے معاملے میں شدید اختلافات ہیں جب کہ فوکوشیما کے حادثے کے بعد عوام میں اس کی مخالفت بڑھ گئی ہے ۔ اگرچہ مشرقی یورپ کے بعض ملک اب بھی نیوکلیئر توانائی کے حق میں ہیں، لیکن جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور اٹلی ان ملکوں میں شامل ہیں جنھوں نے نیوکلیئر پلانٹس کی تعمیر پر یا ان کو وسعت دینے پر کام بند کر دیا ہے یا معطل کر دیا ہے ۔
شاید اس وقت نیوکلیئر توانائی کے حق میں سب سے زیادہ طاقتور دلیل یہ ہے کہ اس سے تیل اور گیس کی درآمد پر یورپ کا انحصار کم ہو جائے گا اور دنیا میں گرمی میں اضافے کو روکنے میں مدد ملے گی۔ لیکن فرانس میں توانائی کے کنسلٹنٹ برنارڈ لاپونچ کہتے ہیں کہ نیوکلیئر پاور کے استعمال میں خطرات اور اس سے پیدا ہونے والے فاضل مادے اور نیوکلیئر مواد کے پھیلاؤ کے خطرات بہت زیادہ ہیں۔
دوسرے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یورپ کے پاس نیوکلیئر توانائی کے استعمال کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے، سوائے اس کے کہ کم خطرناک اور آلودگی سے پاک متبادل ذرائع تیار کیئے جائیں اور علاقے میں توانائی کا استعمال کم کیا جائے۔ ایک بات بہر حال واضح ہے کہ یورپ میں نیوکلیئر توانائی کے استعمال کی بحث ابھی ختم نہیں ہوئی۔