ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے جمعرات کو کہا کہ ملک کے جوہری پروگرام پر مذاکرات میں ’’اہم پیش رفت‘‘ ہوئی ہے مگر ابھی بھی کوئی معاہدہ طے نہیں پایا۔
یہ بات انھوں نے سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزین میں جمعرات کو مذاکرات میں وقفے کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں کہی۔
مزید ایک روز توسیع کے بعد ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات جمعرات کو بھی لوزین میں جاری ہیں جہاں امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری اور ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف کی ایک مرتبہ پھر ملاقات ہو رہی ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان میری ہارف نے ٹویٹر کے ذریعے بتایا کہ عہدیداروں نے جمعرات کی صبح ایرانی اور بین الاقوامی ماہرین کے وفود کے ہمراہ وقفے سے پہلے کئی گھنٹے تک بات چیت کی۔
اس سے پہلے انہوں نے بتایا تھا کہ مذاکرات میں مسلسل پیش رفت جاری ہے تاہم مذاکرات کار ’’کسی سیاسی سمجھوتے پر نہیں پہنچے۔‘‘
بدھ کو سارا دن امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی کے ایران کے ساتھ مذاکرات جاری رہے تاکہ بنیادی معاہدے میں رہ جانے والے خلا پر کیے جا سکیں۔
فریقین نے معاہدے کے بنیادی خدوخال واضح کرنے کے لیے منگل کی تاریخ طے کی تھی مگر اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ سے مذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ایران کے مرکزی مذاکرات کار عباس عراقچی نے بدھ کو ایران کے سرکاری ٹیلی وژن کو بتایا کہ ان کا وفد اس بات پر اصرار کر رہا ہے کہ معاہدے کے بنیادی خدوخال واضح ہونے چاہئیں تاکہ ایران کی طرف سے کسی معاہدے پر اتفاق کرنے سے پہلے اس پر سے تمام بین الاقوامی پابندیاں اٹھائی جا سکیں۔
دوسرے اختلافی معاملات میں ایران کی مستقبل میں جوہری تحقیق اور ترقی شامل ہے۔
اگر فریقین ایک بنیادی معاہدے پر اتفاق کر لیتے ہیں تو 30 جون تک حتمی معاہدے تک پہنچنے کے لیے مزید کام درکار ہو گا۔
مغرب کو شبہ ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کی آڑ میں ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن تہران اس بات کی تردید کرتے ہوئے مُصر ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پر امن مقاصد کے لیے ہے۔