اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کے علاوہ جرمنی اور تہران کے اعلیٰ سفارتکاروں کے درمیان ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر سوئٹزرلینڈ میں مذاکرات جاری ہیں۔
امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری ہفتہ کو واشنگٹن سے جنیوا پہنچے تاکہ وہ ان مذاکرات میں حصہ لیں جو تقریباً 10 برسوں سے جاری اس تنازع کے حل کی تلاش میں ممکنہ طور پر کامیابی کے قریب ہیں۔
مسٹر کیری دیگر سفارت کاروں ساتھ ملاقاتیں کر چکے ہیں۔
برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے ہفتہ کو کہا کہ ’’مشکل مذاکرات‘‘ ہونا ابھی باقی ہیں، کیوں کہ مختصر مگر ’’اہم خلا‘‘ تاحال موجود ہیں۔
جرمن اور فرانسیسی سفارت کاروں نے بھی کہا ہے کہ معاہدے پر اتفاق رائے کے لیے مشکل کام کرنا ہے۔
چین کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر بات چیت اب اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان جین ساکی کے مطابق اب تک ہونے والے مذاکرات میں پیش رفت کو دیکھتے ہوئے وزیر خارجہ جان کیری نے اس امید کے ساتھ کہ متنازع جوہری پروگرام پر ایک معاہدے پر اتفاق ہوگا، جینوا جانے کا فیصلہ کیا۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کی صدارت میں ایران کے ساتھ ہونے والے ان مجوزہ مذاکرات میں برطانیہ، فرانس، روس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ بھی شرکت کریں گے۔
طرفین نے جمعرات کو اجلاس کے بعد مذاکراتی عمل میں پیش رفت کی نشاندہی کی تھی، مگر اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ قابلِ ذکر اختلافات بدستور موجود ہیں۔
ان اختلافات میں ایک اہم جز یہ بھی ہے کہ تہران کو کس حد تک یورینیم کی افژودگی کی اجازت ہوگی اور یہ کہ تعزیرات میں کتنی نرمی کی جائے گی۔
تہران کا کہنا ہے کہ وہ یورینیم کی افژودگی کا حق رکھتا ہے اور اس بات کی تردید کرتا آیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کا خواہشمند ہے۔
اس نے جوہری پروگرام میں شامل بعض سرگرمیوں کو معطل کرنے کی پیشکش کی ہے اور مغربی تعزیرات میں نرمی کے بدلے اس پروگرام کے زیادہ مربوط انداز میں معائنے کی اجازت پر اتفاق کیا ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری ہفتہ کو واشنگٹن سے جنیوا پہنچے تاکہ وہ ان مذاکرات میں حصہ لیں جو تقریباً 10 برسوں سے جاری اس تنازع کے حل کی تلاش میں ممکنہ طور پر کامیابی کے قریب ہیں۔
مسٹر کیری دیگر سفارت کاروں ساتھ ملاقاتیں کر چکے ہیں۔
برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے ہفتہ کو کہا کہ ’’مشکل مذاکرات‘‘ ہونا ابھی باقی ہیں، کیوں کہ مختصر مگر ’’اہم خلا‘‘ تاحال موجود ہیں۔
جرمن اور فرانسیسی سفارت کاروں نے بھی کہا ہے کہ معاہدے پر اتفاق رائے کے لیے مشکل کام کرنا ہے۔
چین کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر بات چیت اب اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان جین ساکی کے مطابق اب تک ہونے والے مذاکرات میں پیش رفت کو دیکھتے ہوئے وزیر خارجہ جان کیری نے اس امید کے ساتھ کہ متنازع جوہری پروگرام پر ایک معاہدے پر اتفاق ہوگا، جینوا جانے کا فیصلہ کیا۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کی صدارت میں ایران کے ساتھ ہونے والے ان مجوزہ مذاکرات میں برطانیہ، فرانس، روس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ بھی شرکت کریں گے۔
طرفین نے جمعرات کو اجلاس کے بعد مذاکراتی عمل میں پیش رفت کی نشاندہی کی تھی، مگر اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ قابلِ ذکر اختلافات بدستور موجود ہیں۔
ان اختلافات میں ایک اہم جز یہ بھی ہے کہ تہران کو کس حد تک یورینیم کی افژودگی کی اجازت ہوگی اور یہ کہ تعزیرات میں کتنی نرمی کی جائے گی۔
تہران کا کہنا ہے کہ وہ یورینیم کی افژودگی کا حق رکھتا ہے اور اس بات کی تردید کرتا آیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کا خواہشمند ہے۔
اس نے جوہری پروگرام میں شامل بعض سرگرمیوں کو معطل کرنے کی پیشکش کی ہے اور مغربی تعزیرات میں نرمی کے بدلے اس پروگرام کے زیادہ مربوط انداز میں معائنے کی اجازت پر اتفاق کیا ہے۔