واشنگٹن —
ایران کے صدر حسن روحانی نے عالمی طاقتوں پر زور دیا ہے کہ وہ 20 جولائی کی ڈیڈلائن سے قبل ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر معاہدہ کرکے تنازع کو ختم کریں۔
ہفتے کو تہران میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر نے کہا کہ ان کی حکومت نے مغرب کے ساتھ تصادم کا راستہ ترک کیا تھا جس کے نتیجے میں ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں نرم ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایران اور چھ عالمی طاقتیں 20 جولائی کی ڈیڈلائن سے قبل کسی سمجھوتے پر متفق نہ ہوسکیں تو بھی اب تصادم کا راستہ دوبارہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔
صدر روحانی کا مزید کہنا تھا کہ نیک نیتی اور لچک سے اختلافات کا حل نکالا جاسکتا ہے اور ان کے بقول، انہیں یقین ہے کہ باقی ماندہ اختلافات کے باوجود 20 جولائی سے قبل فریقین کے درمیان سمجھوتہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر ڈیڈلائن سے قبل اختلافات طے نہ ہوئے تو فریقین بات چیت کا سلسلہ اس کے بعد بھی ایک ماہ یا اس سے زائد عرصے تک جاری رکھ سکتے ہیں۔
سرکاری ٹی وی پر براہِ راست نشر کی جانے والی پریس کانفرنس میں ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت جوہری تنازع پر جاری مذاکرات کے دوران سفارت کاری کے ذریعے تنازع کا حل نکالنے سے متعلق اپنے عزم کا اظہار کرچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 20 جولائی سے قبل معاہدے پر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں بھی اب پہلے جیسی صورتِ حال پیدا نہیں ہوگی اور ایران پر پابندیاں سخت نہیں کی جائیں گی۔
صدر روحانی نے کہا کہ مغربی ملکوں کو ڈیڈلائن سے قبل سمجھوتے پر اتفاقِ رائے کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے ورنہ مذاکرات کی ناکامی کا الزام سخت گیر امریکی حلقوں اور اسرائیل پر عائد کیا جائے گا۔
ایران اور چھ عالمی طاقتوں (امریکہ، روس، چین، فرانس، برطانیہ اور جرمنی) کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور 16 سے 20 جون تک ویانا میں ہوگا جس میں بات چیت میں آنے والا ڈیڈلاک دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
گزشتہ سال 24 نومبر کو طے پانے والے عبوری معاہدے کے تحت چھ ملکی مذاکراتی گروپ 'پی5+1' نے ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر حتمی سمجھوتے کے لیے 20 جولائی کی ڈیڈلائن مقرر کی تھی۔
عبوری معاہدے کے تحت ایران نے یورینیم کی اعلیٰ سطح پر افزودگی ترک کر رکھی ہے جس کے جواب میں اس پر عائد اقتصادی پابندیوں نرم کردی گئی ہیں۔
سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ فریقین کے مابین اب بھی کئی اختلافات طے ہونا باقی ہیں جس کے باعث امکان ہے کہ ڈیڈلائن سے قبل سمجھوتے پر اتفاقِ رائے نہیں ہوسکے گا۔
لیکن اس بات کاامکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ سمجھوتے طے نہ پانے کی صورت میں فریقین ڈیڈلائن میں اضافے پر متفق ہوجائیں گے۔
ہفتے کو تہران میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر نے کہا کہ ان کی حکومت نے مغرب کے ساتھ تصادم کا راستہ ترک کیا تھا جس کے نتیجے میں ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں نرم ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایران اور چھ عالمی طاقتیں 20 جولائی کی ڈیڈلائن سے قبل کسی سمجھوتے پر متفق نہ ہوسکیں تو بھی اب تصادم کا راستہ دوبارہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔
صدر روحانی کا مزید کہنا تھا کہ نیک نیتی اور لچک سے اختلافات کا حل نکالا جاسکتا ہے اور ان کے بقول، انہیں یقین ہے کہ باقی ماندہ اختلافات کے باوجود 20 جولائی سے قبل فریقین کے درمیان سمجھوتہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر ڈیڈلائن سے قبل اختلافات طے نہ ہوئے تو فریقین بات چیت کا سلسلہ اس کے بعد بھی ایک ماہ یا اس سے زائد عرصے تک جاری رکھ سکتے ہیں۔
سرکاری ٹی وی پر براہِ راست نشر کی جانے والی پریس کانفرنس میں ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت جوہری تنازع پر جاری مذاکرات کے دوران سفارت کاری کے ذریعے تنازع کا حل نکالنے سے متعلق اپنے عزم کا اظہار کرچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 20 جولائی سے قبل معاہدے پر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں بھی اب پہلے جیسی صورتِ حال پیدا نہیں ہوگی اور ایران پر پابندیاں سخت نہیں کی جائیں گی۔
صدر روحانی نے کہا کہ مغربی ملکوں کو ڈیڈلائن سے قبل سمجھوتے پر اتفاقِ رائے کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے ورنہ مذاکرات کی ناکامی کا الزام سخت گیر امریکی حلقوں اور اسرائیل پر عائد کیا جائے گا۔
ایران اور چھ عالمی طاقتوں (امریکہ، روس، چین، فرانس، برطانیہ اور جرمنی) کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور 16 سے 20 جون تک ویانا میں ہوگا جس میں بات چیت میں آنے والا ڈیڈلاک دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
گزشتہ سال 24 نومبر کو طے پانے والے عبوری معاہدے کے تحت چھ ملکی مذاکراتی گروپ 'پی5+1' نے ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر حتمی سمجھوتے کے لیے 20 جولائی کی ڈیڈلائن مقرر کی تھی۔
عبوری معاہدے کے تحت ایران نے یورینیم کی اعلیٰ سطح پر افزودگی ترک کر رکھی ہے جس کے جواب میں اس پر عائد اقتصادی پابندیوں نرم کردی گئی ہیں۔
سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ فریقین کے مابین اب بھی کئی اختلافات طے ہونا باقی ہیں جس کے باعث امکان ہے کہ ڈیڈلائن سے قبل سمجھوتے پر اتفاقِ رائے نہیں ہوسکے گا۔
لیکن اس بات کاامکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ سمجھوتے طے نہ پانے کی صورت میں فریقین ڈیڈلائن میں اضافے پر متفق ہوجائیں گے۔