رسائی کے لنکس

انچاس دِن قید تنہائی میں رکھا گیا: جیسن رضائیاں


فائل
فائل

اُنھوں نے جرمن اسپتال میں ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے ایڈیٹروں کے ساتھ بالمشافیٰ ملاقات کی، جہاں وہ امریکہ واپس آنے سے قبل اپنے اوپر بیتے تکلیف دہ دِنوں کے بعد صحتیاب ہو رہے ہیں

واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے، جیسن رضائیاں نے کہا ہے کہ ایرانی جیل میں 18 ماہ گزارنے کے دوران اُنھیں 49 روز تک قید تنہائی میں رکھا گیا، جس کے باعث اُنھوں نے لوگوں کے ساتھ بات چیت کو غیرمعمولی طور پر محدود کر دیا ہے۔

رضائیاں اُن چار امریکیوں میں شامل ہیں جنھیں ہفتے کے روز قیدیوں کے تبادلے کے دوران رہائی ملی، جو جوہری سمجھوتے پر یوم عمل درآمد پر عمل میں آیا۔

اُنھوں نے جرمن اسپتال میں ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے ایڈیٹروں کے ساتھ بالمشافیٰ ملاقات کی، جہاں وہ امریکہ واپس آنے سے قبل اپنے اوپر بیتے تکلیف دہ دِنوں کے بعد صحتیاب ہو رہے ہیں۔
بقول اُن کے، ’میں لوگوں کو یہ بتادوں کہ جسمانی طور پر میں ٹھیک ہوں۔ مجھے پتا ہے کہ لوگ مجھے سننا چاہتے ہیں، لیکن میں کچھ دِن آرام کرنا چاہتا ہوں‘۔

رضائیاں پر جاسوسی کا الزام لگایا گیا تھا اور 2014ٕمیں گرفتار کیا گیا، جن الزامات کو واشنگٹن پوسٹ اور اوباما انتظامیہ نے نامعقول قرار دیا تھا۔ بند کمرے میں مقدمہ چلائے جانے کے بعد، اُنھیں نامعلوم سزا سنائی گئی تھی، جس کارروائی کے دوران بظاہر اُنھیں اپنے دفاع کا معمولی موقع دیا گیا تھا۔
رضائیاں نے بتایا کہ اُن کا زیادہ تر وقت ایران کے پاسدارانِ انقلاب کی حراست میں گزرا، جو فوجی فورس ہے جو ارادہ سخت گیر مذہبی رہنماؤں کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔

اُنھیں ایک چھوٹے کے کمرے میں رکھا جاتا تھا جس میں چٹائی تک نہیں تھی۔ اُنھوں نے بتایا کہ اُن کی جسمانی مشق احاطے کی گرد چکر لگانے تک محدود تھی۔

اُنھیں آنکھوں اور پیٹ کی تکلیف کے باعث تین بار اسپتال داخل کرایا گیا۔

رضائیاں نے کہا کہ ایرانی حراست کے آخری چند گھنٹے انتہائی بے چینی کی نوعیت کے تھے۔ ایران سے اپنی روانگی اور سوٹزرلینڈ کے اہل کاروں کو حوالگی امتحانی لمحات تھے، یوں لگتا تھا کہ کہیں یہ چھن نہ جائیں۔

XS
SM
MD
LG