جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے اِی اے) نے تصدیق کی ہے کہ ایران عالمی طاقتوں کی جانب سے جوہری سمجھوتے میں شامل کی گئی شرائط پر پورا اتر رہا ہے، جس سے ایران کے خلاف عائد تعزیرات میں نرمی کی راہ ہموار ہو گئی ہے، اور یوں، ایران کے خلاف لاگو سخت بین الاقوامی پابندیاں ہٹائی جا رہی ہیں۔
یورپی یونین کی اعلیٰ ایلچی، فریڈریکہ مغیرنی نے اعلان کیا کہ عالمی طاقتیں 'ایران پر جوہری معاملے سے متعلق تعزیرات ہٹا رہی ہیں'۔
اس بات کا اعلان ہفتے کو ویانا میں ایک مشترکہ ملاقات کے دوران کیا گیا، جس میں ایرانی وزیر خارجہ، محمد جواد ظریف شریک تھے۔
ایک بیان میں، امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ 'سنگ میل جوہری سمجھوتے پر ایران کی طرف سے شرائط پوری کیے جانے پر امریکہ کی جانب سے لاگو تعزیرات اب اٹھائی جاتی ہیں۔'
اُسی وقت، وائٹ ہائوس نے ایک انتظامی حکم نامہ جاری کیا، جس سے پابندیاں اٹھانے کے اقدام کا باضابطہ اعلان ہوا۔
مغیرنی نے کہا کہ 'یہ تاریخی سمجھوتا منصفانہ اور مضبوط' نوعیت کا معاملہ ہے، اور یہ کہ 'اس پر باقائدہ عمل درآمد' علاقائی اور بین الاقوامی امن کے فروغ کے لیے ایک اہم کام ہے۔
امریکہ ایران کا قیدیوں کا تبادلہ
عمل درآمد کا لفظ ایسے میں سامنے آیا جب اِسی روز ایران اور امریکہ نے اپنے قیدیوں کا تبادلہ کیا۔ رہا کیے گئے امریکیوں میں 'واشنگٹن پوسٹٌ کے نمائندے، جیسن رضائیاں اور ایک سابق امریکی میرین، امیر حکمتی شامل ہیں۔
کیری نے کہا ہے کہ وہ حراست میں لیے گئے امریکیوں کا معاملہ ظریف کے ساتھ ہونے والے جوہری سمجھوتے پر سارے مذاکرات میں اٹھاتے رہے ہیں۔
طویل عمل کا اختتام
سمجھوتے پر عمل درآمد، جسے 'جوائنٹ کمپری ہنسو پلان آف ایکشن' کے نام سے جانا جاتا ہے، تقریباً دو سال کے تند و تیز گفتگو کے مراحل سے گزرا، جس کے بعد جولائی 2015ء کو سمجھوتے پر کثرت رائے سامنے آئی۔
مذاکرات میں امریکہ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر مستقل ارکان، جرمنی اور یورپی یونین شامل تھے۔
سمجھوتے پر عمل در آمد کے نتیجے میں، ایران کو اب بیرون ملک بینکوں میں منجمد اثاثون تک رسائی ہوگی۔ اِن اثاثوں کا اندازہ 50 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اب ایران دوسرے ملکوں کے ساتھ اپنی تجارت کو وسعت دینے کا مجاز ہوگا۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے ملک کی معیشت کی اصلاح کے عہد پر ووٹ لیے تھے۔ ملکی اقتصادیات پر تعزیرات کے تکلیف دہ اثرات سے بچنا اُن کے عہد کا ایک کلیدی نکتہ تھا۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے ملک کی معیشت کی اصلاح کے عہد پر ووٹ لیے تھے۔ ملکی اقتصادیات پر تعزیرات کے تکلیف دہ اثرات سے بچنا اُن کے عہد کا ایک کلیدی نکتہ تھا۔
تاہم، ایران کو تعزیرات میں ملنے والی نرمی کے حوالے سے امریکہ کی طرف سے محدود پڑے گا۔ یہ بات کیسلی دیونپورٹ نے کہی جو جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کی سربراہ اور اسلحے پر کنٹرول کی تنظیم سے وابستہ ہیں۔
اُن کے بقول، 'انسانی حقوق اور دہشت گردی سے متعلق لاگو کئی ایک پابندیاں جاری رہیں گی، جس کے باعث اداروں کے لیے دشوار ہوگا کہ وہ کوئی خاص پیش رفت دکھا سکیں'۔
جمعے کے روز دی گئی ایک بریفنگ کے دوران، انتظامیہ کے ایک اہل کار نے بتایا کہ امریکی کاروباری اداروں کے لیے تین شعبوں میں فرق پڑے گا۔
اہل کار نے بتایا کہ پہلی کیٹگری میں خوراک اور دیگر اشیا شامل ہوں گی، جیسا کہ ایران سے پِستے کی درآمد اور ساتھ ساتھ ایرانی غالیچہ۔
دوسری کیٹگری میں ایران کو زیادہ سہولیت ہوگی کہ وہ شہری ہوابازی کے میدان میں امریکہ سے آلات خریدے۔
اہل کار کے مطابق، تیسرے یہ کہ امریکی کمپنیوں کے بیرون ملک نمائندوں کو ایران کے ساتھ بات چیت میں آزادی حاصل ہوگی، جب تک کہ وہ امریکہ حکومت کی شرائط کی پابندی کرتے ہیں۔
ایشیائی ملکوں میں، جہاں کے بینکوں میں ایران کے بہت سارے اثاثے منجمد ہیں، جیسا کہ تیل کی آمدن۔ بتایا جاتا ہے کہ چند یورپی ملکوں کے علاوہ روس کو فائدہ ہو سکتا ہے، جو ایران کو کچھ مزید بجلی کے جوہری توانائی کے پلانٹ فروخت کرے۔
ایران نے جمعرات کو کہا تھا کہ اُس نے اپنے ارک کےبھاری پانی کے نیوکلیئر ری ایکٹر کو بند کردیا ہے اور اس کے کچھ حصوں کو سیمنٹ سے بھر دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہاں جوہری ہتھیار نہیں بنائے جاسکتے۔
عالمی طاقتون کو شبہ رہا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار تشکیل دینے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے؛ تہران یہ کہتا آیا ہے کہ اُس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ تعزیرات لگنے سے ایران کے کم از کم 50 ارب ڈالر مالیت کے اثاثے منجمد رہے۔