ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے حکومت کی جانب سے پٹرول کی قیمتوں میں 50 فی صد اضافے کی حمایت کی ہے۔ قیمتوں میں اس اضافے کے خلاف اختتام ہفتہ ملک بھر میں مظاہرے ہوئے جن میں کئی لوگ ہلاک و زخمی بھی ہوئے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ مظاہروں کے دوران بدمعاشوں اور غنڈوں نے املاک کو نقصان پہنچایا۔ مظاہروں میں تشدد کے واقعات بھی رونما ہوئے جس میں کم از کم دو افراد ہلاک ہو گئے۔
حکومت نے مظاہروں پر قابو پانے اور مظاہرین کے درمیان رابطے روکنے کے لیے ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس معطل کر دی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ٹیلی وژن پر اپنے خطاب میں کہا کہ ان مظاہروں کی وجہ سے کچھ لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، تاہم انہوں نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں۔
حالیہ مظاہروں سے ایران کی حکومت پر ایک بار پھر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے جو صدر ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ سخت اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
صدر ٹرمپ تہران کے عالمی طاقتوں کےساتھ جوہری معاہدے سے یہ کہتے ہوئے الگ ہو گئے تھے کہ یہ معاہدہ ایران کو جوہری سرگرمیوں سے روکنے میں ناکافی ہے۔ معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکہ نے ایران پر ماضی کے مقابلے میں سخت تر اقتصادی پابندیاں لگا دیں تھیں۔
تیل کے قیمتوں میں اضافے کے خلاف ایران کے طول و عرض میں ہونے والے زیادہ تر مظاہرے پرامن رہے۔ لیکن بعض مقامات پر تشدد دیکھنے میں آیا۔
انٹرنیٹ پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز میں پولیس کو مظاہرین کے خلاف آنسو گیس استعمال کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جب کہ بعض مقامات پر ہجوم املاک کو نذر آتش کرتا ہوا بھی نظر آئے۔
صدر حسن روحانی کی جانب سے پٹرول کی قیمتوں میں 50 فی صد اضافے کے اعلان کے چند ہی گھنٹوں کے بعد جمعے کے روز ایک درجن سے زیادہ شہروں میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔
ایران میں پٹرول کی نئی قیمت 15000 ریال یعنی تقریباً 13 سینٹ فی لٹر ہو گئی ہے۔ جو اب بھی دنیا بھر میں تیل کی کم ترین قیمتوں میں شامل ہے۔ اگر اس کا موازنہ امریکہ سے کیا جائے تو ایران میں تیل کم ازکم پانچ گنا سستا ہے۔