ایران نے عرب ممالک میں حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت میں نکالی جانے والی ریلی کو روکنے کے لیے تہران کی سٹرکوں پر سکیورٹی فورسز تعینات کر نے کے علاوہ حزب مخالف کے اصلاح پسند رہنماء کے گھروں کو جانے والے راستے بھی بند کر دیے گئے ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق پیر کی صبح پولیس اور مظاہرین میں کچھ مقاما ت پر جھڑپیں بھی ہوئیں اور مظاہرہ کرنے والے زیادہ تر موٹر سائیکلوں پر سوار تھے۔ حکومت کی طرف سے اجازت نہ ملنے کے باوجود حزب مخالف کے گروپوں نے اس ریلی کی کال دے رکھی تھی۔
اصلاح پسند رہنماؤں میر حسین موسوی اور مہدی کروبی نے کہا ہے کہ اُنھوں نے اس احتجاجی ریلی کی کال اُن مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لیے دی جن کے مظاہروں کے بعد مصراور تیونس کے حکمرانوں کو اپنا اقتدار چھوڑنا پڑا۔ ایرانی حکام نے اصلاح پسندوں کو متنبہ کیا تھا کہ وہ اس اقدام سے باز رہیں۔
موسوی نے اپنی ویب سائٹ کالیمے ’Kaleme‘ پر کہا ہے کہ ایرانی پولیس نے تہران میں اُن کے گھر کے باہر کئی کاریں کھڑی کررکھی ہیں تاکہ اُنھیں اور اُن کی بیوی کو طے کر دہ مظاہرے میں شرکت سے روکا جاسکے۔ ویب سائٹ کے مطابق عہدیداروں نے موسوی کے گھر کی ٹیلی فون لائن بھی کاٹ دی ہے۔
کروبی بھی کئی دنوں سے اپنے گھر میں نظر بند ہیں ۔ موسوی اور کروبی نے 2009ء متنازع صدارتی انتخابات میں ایرانی صدر محمود احمدی کی دوسری مدت کے لیے کامیابی کے خلاف مظاہروں کی قیادت کی تھی ۔ ان دونوں ایرانی سیاست دانوں نے محمود احمدی نژاد کے مقابلے میں انتخابات میں حصہ لیا تھا اور شکست کے بعد انتخابی عمل میں دھاندلی کا الزام لگایا تھا لیکن ایران کی حکومت اس کو مسترد کرتی ہے۔
حکومت نے طاقت کااستعمال کرکے ان مظاہروں کو کچل دیا تھا۔ کئی ماہ تک جاری رہنے والے ان مظاہروں کے دوران ہونے والی جھڑپوں میں متعدد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ایران کے اصلاح پسند رہنماء سمجھتے ہیں کہ عرب ممالک میں حکمرانوں کے خلاف کیے جانے والے مظاہرے اُن کی تحریک سے مشابہت رکھتے ہیں۔
ہفتے کو امریکہ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائز ٹام ڈونیلن ’Tom Donilon‘ نے تہران پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ جس طرح قاہرہ میں لوگوں کو پرامن احتجاج کے لیے اکٹھے ہونے کی اجازت دی گئی تھی ویسے ہی ایرانی شہریوں کو اپنا حق استعمال کرنے کے لیے یہ موقع دیا جائے۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1