ویب ڈیسک۔ ایران میں،پولیس کی تحویل میں ایک خاتون کی ہلاکت پر شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے جواب میں ، ایران کے متعدد شہروں میں جمعے کے روز ریاست کے زیر اہتمام مظاہرے ہوئے۔ جن میں احتجاجی مارچ کرنے والے ’بلوائیوں‘ کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
یہ مظاہرے حکام کی جانب سے اب تک کی سخت ترین وارننگ کے بعد ہو رہے ہیں۔ جس میں فوج نے کہا ہے کہ وہ اس بے چینی کے پیچھے چھپے دشمنوں کا مقابلہ کرے گی۔ یہ انتباہ اسی طرز کی کارروائی کا اشارہ ہو سکتا ہے جس میں ماضی میں ہونے والے احتجاجوں کو کچل دیا گیا تھا۔
سرکاری ٹی وی پر براہ راست ان مظاہروں کے کوریج میں دکھایا گیا کہ مظاہرین نے حکومت مخالف احتجاجیوں کو ’’اسرائیل کے فوجی‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔انہوں نے ’’مرگ بر امریکہ‘‘ اور “مرگ بر اسرائیل” کے نعرے بھی لگائے۔ یہ وہ عام نعرے ہیں جو ملک کے مذہبی رہنما اپنےحکام کی حمایت بڑھانے کی کوشش میں ہمیشہ استعمال کرتے ہیں۔
مظاہرین کے ہجوم کے نعرے تھے ۔’’قرآن کے مجرموں کو موت کی سزا دی جانی چاہئیے‘‘۔
ایرانیوں نے بائیس سالہ خاتون مہسا امینی کے معاملے پر شدید احتجاج کیا ہے جو گزشتہ ہفتے مورال پولیس کی تحویل میں ہلاک ہو گئی تھیں۔ انہیں اخلاقی پولیس نے نامناسب لباس پہننے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
اخلاقی پولیس ایران کے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے منسلک ہے۔ اور اس کے ذمے یہ کام ہے کہ وہ ملک کے مذہبی حکام کی تشریح کردہ اسلامی اخلاقیات کے احترام کو یقینی بنائے۔
مہسا امینی کی موت نے ایران میں شخصی آزادیوں پر قدغن۔ خواتین کے لئے لباس کی سخت پابندیوں اور تعزیرات کے سبب معیشت کی زبوں حالی جیسے مسائل پر غصے کو پھر سے بھڑکا دیا ہے۔
جمعے کے روز ایرانی فوج کے پیغام کو ان مظاہرین کے لئے ایک وارننگ کے طور پر دیکھا جا رہا ہےجو امینی کی موت پر مشتعل ہیں۔پیغام تھا کہ مایوسی کے عالم میں یہ کارروائیاں، اسلامی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے دشمن کی بدی پر مبنی حکمت عملی کا ایک حصہ ہیں۔
ایران کے مذہبی حکمرانوں کو خوف ہے کہ یہ مظاہرے دو ہزار انیس کے احتجاج کی شکل اختیار نہ کر لیں جو پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر پھوٹ پڑے تھے۔ اسلامی جمہوریہ کی تاریخ کے خوُنریز ترین احتجاج میں رائیٹر زنے 1500 لوگوں کی ہلاکت کی اطلاع دی تھی۔
ہینگ وے اور ایچ آر اے این اے جیسے حقوق انسانی کے گروپوں, وکلاء اور سوشل میڈیا صارفین نے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے طلباء اور سرگرم کارکنوں کی انکے گھروں سے بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی اطلاع دی ہے، جو بظاہر ان مظاہروں کو دبانے کی کوشش ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان نے ایسی رپورٹوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے جومظاہرین کے خلاف ضرورت سے زیادہ اور غیر متناسب ظاقت کے استعمال سے متعلق ہیں۔
ایرانی میڈیا نے جمعرات کے روز 288 مظاہرین کی گرفتاری کی اطلاع دی ہے۔
امینی کی موت پر میڈرڈ، ایتھنز، کینیڈا اور نیدر لینڈز وغیرہ میں بھی احتجاج ہوا ہے۔
اس خبر کے لئے مواد خبر رساں ادارےرائیٹرز سے لیا گیا ہے۔