رسائی کے لنکس

ایرانی سپریم لیڈر نے جوہری پروگرام پر امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا راستہ ہموار کر دیا


14 جولائی 2015 کو عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کےایک تاریخی معاہدے کے بعد فیڈریکا موگرینی، محمد جواد ظریف، ایران جوہری توانائی تنظیم کے سربراہ علی اکبر صالحی، روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف، برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری
14 جولائی 2015 کو عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کےایک تاریخی معاہدے کے بعد فیڈریکا موگرینی، محمد جواد ظریف، ایران جوہری توانائی تنظیم کے سربراہ علی اکبر صالحی، روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف، برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری

  • ایران کے سپریم لیڈر نے اپنی سویلین حکومت کو بتایا کہ اپنے دشمن کے ساتھ مذاکرات میں کوئی حرج نہیں ہے۔
  • ان کا کہنا تھا کہ کبھی کبھی حکمت عملی کے تحت پسپائی ضروری ہو سکتی ہے۔
  • ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ اس میں پزشکیان کے پاس عمل دخل کےلیے کتنی گنجائش ہوگی۔۔
  • اگر ہیرث جیت گئیں تو اسرائیل ۔حماس جنگ کے خاتمے کے ساتھ کسی معاہدے کا امکان بڑھ جائے گا:ایک رسک انٹیلی جینس فرم۔
  • اگر ایران سنجیدگی یا کسی نئے رویے کا مظاہرہ کرتا ہے تو انہیں جوہری سرگرمیوں میں اضافہ روکنا ہوگا اور آئی اے ای اے کے ساتھ بامعنی تعاون شروع کرنا ہو گا: امریکی محکمہ خارجہ۔

ایران کے سپریم لیڈر نے اپنی سویلین حکومت کو یہ بتاتے ہوئے کہ اپنے دشمن کے ساتھ مذاکرات میں کوئی حرج نہیں ہے ، اپنے ملک کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے جوہری پروگرام پر امریکہ کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے دروازہ کھول دیا ہے ۔

آیت اللہ خامنہ ای کے بیانات نے اصلاح پسند صدر مسعود پزشکیان کی حکومت کے تحت کسی بھی مذاکرات کے انعقاد کے لیے واضح ریڈ لائنز طےکر دی ہیں اور ان کے ایسے انتباہوں کی تجدید کر دی ہے کہ واشنگٹن پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

لیکن ان کے بیانات 2015 میں عالمی طاقتو ں کےساتھ ایران کے جوہری معاہدے کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں جب اقتصاد ی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے تہران کا جوہری پروگرام بہت حد تک محدود ہو گیا تھا۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ اس میں پزشکیان کے پاس عمل دخل کےلیے کتنی گنجائش ہوگی، خاص طور پر ایسے میں جب اسرائیل ۔حماس جنگ پر بیشتر مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی سطح مسلسل بلند ہے اور جب امریکہ نومبر میں صدارتی انتخابات کے لیے تیار ی کر رہاہے ۔

خامنہ ای کی سرکاری ویب سائٹ پرایک پوسٹ کے مطابق،خامنہ ای نے کہااس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کسی مخصوص صورتحال میں اسی دشمن سے بات چیت نہیں کر سکتے ۔ ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن ان سےنیک توقعات وابستہ نہ کریں ۔

خامنہ ای نے جن کا ریاستی امور میں فیصلہ حتمی ہوتا ہے، پزشکیان کی حکومت کو یہ انتباہ بھی کیا کہ ،’’ دشمن پر اعتما د نہ کریں ۔‘‘

پچاسی سالہ خامنہ ای نے 2018 میں اس کے بعد سے جب اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےمعاہدے سے امریکہ کو یک طرفہ طور پر الگ کر لیا تھا، وقتاً فوقتاً مذاکرات پر زور دیا ہے یا انہیں مسترد کیا ہے ۔

حالیہ برسوں میں عمان اور قطر کی ثالثی میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا انعقاد ہوا ہے ۔ خامنہ ای کے تبصرے قطر کے وزیر اعظم کے ایران کے دورے کے ایک روز بعد سامنے آئے ہیں ۔

امریکہ کا ردعمل

امریکی محکمہ خارجہ نے ایسو سی ایٹڈ پریس کی جانب سے کمنٹس کی درخواست کے جواب میں کہا، ’’ہم ایران کی قیادت کو ان کے لفظوں سےنہیں بلکہ ان کے عمل سے پرکھیں گے۔‘‘

محکمہ خارجہ نے کہا ، ہم ایک عرصہ پہلے کہہ چکے ہیں کہ ہم ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے کسی موثر، پائیدار حل کے حصول کے لیے سفارت کاری کو حتمی طور پر بہترین راستہ سمجھتے ہیں۔ تاہم ایران کی جانب سے جوہری سرگرمیوں میں اضافے اور اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے، انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی، ٓئی اے ای اے کے ساتھ تعاون میں اس کی ناکامی کے پیش نظر ہم فی الحال اس قسم کے کسی منظر نامے سے بہت دور ہیں ۔

محکمہ خارجہ نے کہا کہ ،اگر ایران سنجیدگی یا کسی نئے رویے کا مظاہرہ کرتا ہے تو انہیں جوہری سرگرمیوں میں اضافہ روکنا ہوگا اور آئی اے ای اے کے ساتھ بامعنی تعاون شروع کرنا ہو گا۔

جب سے معاہدہ منقطع ہوا ہے، ایران ان تمام شرائط سے دستبردار ہو گیا ہے جو معاہدے کے تحت اس کے پروگرام پر عائد کی گئی تھیں اور وہ یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کررہا ہے، جو کسی جوہری بم کی تیاری کے لیے 90 فیصد کی افزودگی کے قریب کی سطح ہے۔

آئی اے ای اے کی جانب سے نصب کیے گئے نگرانی کے کیمروں کو خراب کر دیا گیا ہے جب کہ ایران نے ویانا میں قائم ایجنسی کے کچھ انتہائی تجربہ کار انسپکٹروں پرپابندی عائد کر دی ہے۔ ایرانی عہدے داروں نے ان دھمکیوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے کہ وہ جوہری بم بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

اسی دوران غزہ کی پٹی میں اسرائیل ۔ حماس جنگ کے دوران ایران او ر اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو ا ہے۔تہران نے اپریل میں اس کے بعد اسرائیل پر ڈرون اور میزائلوں کا ایک غیر معمولی حملہ کیا۔تہران میں حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ کے قتل نے بھی ایران کو اسرائیل کے خلاف انتقامی کارروائی کی دھمکی دینے پر مجبور کر دیا۔

سابق رکن اسمبلی پزشکیان، جنہوں نے مئی میں سخت گیر صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت کے بعد صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے، اپنی صدارتی مہم کو جزوی طور پر اس وعدے پر چلایا تھا کہ وہ مغرب کو مذاکرات میں دوبارہ لائیں گے ۔ ایران کے سپریم لیڈر کے طور پر خامنہ ای کےبیانات انہیں ایسا کرنے کے لیے ایک ڈھال فراہم کر سکتے ہیں ۔ پزشکیان کے نئے وزیر خارجہ عباس عراقچی 2015 کے معاہدے کے مذاکرات میں بھر پور طور پر شامل تھے۔

خامنہ ای نے منگل کے روز یہ بھی کہا کہ ہر وہ چیز کرنے کے بعد جو ہم کر سکتے تھے،کبھی کبھی حکمت عملی کے تحت پسپائی ضروری ہو سکتی ہے لیکن ہمیں دشواری کی پہلی علامت کے نظر آتےہی اپنے مقاصد یا موقف سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے ۔

حالیہ دنوں میں منگل کے روز ایسا دوسری بار ہوا کہ کشیدگیوں کے دوران انہوں نےکسی حکمت عملی کے تحت پسپائی کا حوالہ دیا ہے۔

تاہم یہ صرف ایران ہی نہیں ہے جسے ایک نئی صدارت کا سامنا ہے ، امریکہ میں بھی 5 نومبر کو صدارتی انتخاب ہو گا جس میں نائب صدر کاملا ہیرس اور ٹرمپ سر کردہ امیدوار ہوں گے۔ ایران کو ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی کے بارے میں تشویش ہے۔

اگرچہ امریکہ صدر جو بائیڈن کے تحت ایران کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات میں مصروف ہے تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ یہ سلسلہ کسی ممکنہ ہیرس انتظامیہ کے تحت بھی جاری رہے گا۔

ہیرس نے گزشتہ ہفتے ڈیمو کریٹک نیشنل کنونشن میں کہا تھا، ’میں ایران اور ایران کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کے خلاف ہماری فورسز اور ہمارے مفادات کے دفاع کے لیے کسی بھی ضروری اقدام کو اٹھانے سے نہیں ہچکچاؤں گی۔‘

ایک رسک انٹیلیجینس فرم ، The RANE Network نے کہا ہے کہ اگر ہیرس جیت گئیں تو اسرائیل ۔حماس جنگ کے خاتمے کے ساتھ کسی معاہدے کا امکان بڑھ جائے گا۔

فرم نے منگل کو ایک تجزئیے میں کہاایک بار جب مذاکرات شروع ہو گئے تو امکان ہے کہ ایران کسی نئے معاہدے سے امریکہ کے الگ ہونے کے حوالے سے مزید تحفظات کا مطالبہ کرے گا کیوں کہ وہ 2018 میں سابق معاہدے سے الگ ہو گیا تھا۔

کسی نئے معاہدے کی پائیداری کے بارے میں خدشات کے پیش نظر ایران کے بارے میں یہ امکان بھی کم ہے کہ وہ کوئی زیادہ جوہر ی رعایات دے گا، جیسا کہ مزید ایڈوانس سینٹری فیوجیز کو ناکارہ بنانا ۔ کیوں کہ ایران یہ چاہے گا کہ وہ نئے معاہدے سے امریکہ کی کسی اور علیہدگی کی صورت میں اپنے جوہری پروگرام کو جلد از جلد آگے بڑھانے کے قابل ہو سکے ۔

منگل کے روز خامنہ ای اور پزیشکیان کی کابینہ کے اجلاس میں سابق وزیر خارجہ محمد جواد ظریف بھی نظر آئے جنہوں نے 2015 کا معاہدہ طے کرانے میں مدد کی تھی۔ اجلاس کےبعد ظریف نے ایک آن لائن پیغام میں کہا کہ وہ صدرپزیشکیان کی انتظامیہ میں نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہیں گے۔

اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG