امریکہ نے ایران پر تازہ پابندیاں عائد کی ہیں جن میں ایران کے تیل کی برآمدات پر بھی پابندی شامل ہے جو چار نومبر سے نافذ العمل ہو گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایرانی تیل کی بندش سے، عالمی منڈی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہو سکتا ہے، اگر ایران نے آبنائے ہرمز کو بند کر دیا جس کی اس نے دھمکی دی ہے، اور اس گزر گاہ سے دنیا کے ساٹھ فیصد تیل کی ترسیل ہوتی ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا، تو دنیا میں تیل کا بہت بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
تیل کی معروف کمپنی ویدر فورڈ کے سعودی عرب اور بحرین کے سابق جنرل منیجر ، مسعود ابدالی کہتے ہیں کہ ایران کے تیل کی بندش سے عالمی منڈی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
مسعود ابدالی کا کہنا ہے کہ اگر بات کی جائے ایران سے نکلنے والے تیل کی تو وہ تیس لاکھ بیرل نکالتے۔ تیس لاکھ بیرل ،سعودی عرب اور دیگر چند ممالک کے لئے پورا کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔ اور ایک ڈیڑھ ملین تیل تو امریکہ اکیلا ہی نکال سکتا ہے ۔
تو پھر مسئلہ کہاں پیدا ہو سکتا ہے۔ اس بارے میں مسعود ابدالی کہتے ہیں کہ اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہو گا اگر ایران نے آبنائے ہرمز کو بند کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ایران نے کہا ہے کہ اگر ہمارے تیل پر پابندی لگی، تو ہم خلیج فارس سے تیل نہیں گزرنے دیں گے اور یہ راستہ آبنائے ہرمز سے ہو کر گزرتا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت اور قطر کا تیل یہاں سے گزرتا ہے۔ آبنائے ہرمز ایران کی پہنچ میں ہے۔ اس راستے کو بند کرنے کا مطلب ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والے ساٹھ فیصد تیل کی بندش جو یہاں سے گزرتا ہے۔ اب سوال ہے کہ کیا ایران واقعی آبنائے ہر مز کو بند کر دے گا اور امریکہ سے براہ راست لڑائی کا خطرہ مول لے سکتا ہے۔ اور اگر ایران آبنائے ہرمز کو ایک ہفتے کے لئے بھی بند کرنے میں کامیاب ہو گیا، تو بھی دنیا میں تیل کا بہت بڑ ا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
اسی سلسلے میں سابق بینکار اور کالم نویس اسد رضوی کہتے ہیں کہ زیادہ بڑا مسئلہ ایشیائی اور ان ممالک کو پیش آئے گا جو قرض لیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو اس سے سارے ایشیائی ممالک، جن میں پاکستان بھی شامل ہے اور جن کی تیل خریدے کی قوت ہی بہت کم ہے، ان کی ادائیگیوں کا پورا نظام خراب ہو جائے گا۔
کیا ایرانی تیل اور دیگر پابندیوں کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں ؟ اس بارے میں معروف ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن کہتے ہیں کہ گزشتہ سال ایران سے ہماری کل برآمدات اور درآمدات صرف 30 ملین ڈالر تھیں۔ اور ایف ڈی آئی نہ ہونے کے برابر تھا۔ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ایران سے ہماری تجارت اور سرمایہ کاری دونوں ہی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ البتہ اسمگلنگ بڑے پیمانے پر ہے۔ ایران سے پیٹرول اور بہت ساری دوسری چیزیں آتی ہیں۔ کراچی تک ان کا پیٹرول پہنچ جاتا ہے۔ تو میرے خیال میں ہماری ان فارمل ٹریڈ ہے، وہ چلتی رہے گی۔ اس میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن چونکہ یہ باضابطہ تجارت نہیں ہے، اس لئے اس کے اثرات پاکستان پر نہیں پڑیں گے۔
کیا بھارت پر بھی اس کے اثرات مرتب ہو سکتے؟ اس بارے میں مسعود ابدالی کہتے ہیں کہ ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار بھارت ہے۔ اس کے علاوہ ایران اور بھارت کے درمیان کئی ارب ڈالر کا تجارتی معاہدہ ہے۔ لیکن اب ایران یہ کہہ رہا ہے کہ جو ملک ہم سے تیل نہیں خریدیں گے، ہم ان سے کوئی اور کاروبار نہیں کریں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر بھارت نے ایران سے تیل نہ خریدا، تو پھر چاہ بہار پر کام نہیں کر پائیں گے۔ اگر یہ معاملہ ہوا تو بھارت اور ایران کے درمیان خاصی کشیدگی پیدا ہو گی
ڈاکٹر شاہد حسن نے اس سے مختلف بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا مسئلہ یہ کہ امریکہ افغانستان میں اپنے مسائل حل کرنے کے لئے اور افغانستان میں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے ، امریکی اس کی معاونت لے رہے ہیں۔ ایران پر تمام تر امریکی پابندیوں کے باوجود، بھارت نے ایران کے ساتھ معاہدہ کیا، اور چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر و ترقی کا کام بھارت کے حوالے کیا۔ اور بھارت نے وہاں پر سرمایہ کاری بھی کی ہے اور مزید کر رہا ہے۔ ان کا تو پروگرام یہی ہے کہ بھارت کو چاہ بہار کے بعد، زمینی راستے سے افغانستان میں رسائی ملے گی۔ اور میرے خیال میں امریکہ، افغانستان اور خطے میں اپنے مقاصد کے لئے، بھارت سے صر فِ نظر کرے گا، اور بھارت اور ایران کے تعلقات چلتے رہیں گے۔
تاہم تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ امریکہ میں وسط مدتی انتخابات کے بعد، اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے گا ۔