ایران نے علاقائی حریف سعودی عرب کے ساتھ ہونے والی بات چیت معطل کر دی ہے۔ ایران کے اعلی سیکیورٹی ادارے، سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل یا ایس این ایس سی سے ملحق ا یک ویب سائٹ نے اتوار کے روز بتایا کہ ایران نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے مذاکرات عارضی طور پر معطل کردیے ہیں۔ اس بات چیت کا پانچواں دور اس ہفتے ہو نے والا تھا۔
ہر چند کہ بات چیت معطل کرنے کا کوئی سبب نہیں بتایا گیا ہے، لیکن یہ اعلان سعودی عرب میں ایک ہی دن میں 81 افراد کو سزائے موت دیے جانے کے بعدسامنے آیا ہے، جن میں اطلاعات کے مطابق لگ بھگ 41 شیعہ مسلمان بھی شامل تھے۔
ایران نے اتنے زیادہ لوگوں کو سعودی عرب میں سزائے موت دیے جانے کی مذمت کی ہے۔ ایران کے سرکاری میڈیا نے ان سزاؤں کو بنیادی انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ جب کہ سعودی عرب نے حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی قومی سلامتی کا تحفظ اپنے قوانین کے ذریعے کرتا ہے۔
مشرق وسطی کے امور کے ماہر ڈاکٹر فاروق حسنات کا کہنا ہے کہ خطے کے دونوں بڑے حریف ملکوں کے درمیان جو بات چیت ہو رہی تھی اس میں پیش رفت بھی ہوئی اور خطے کے معاملات پر ان دونوں کی رقابت کے سبب جو اثرات تھے ان کی شدت میں کمی بھی آئی، خاص طور پر یمن کی صورت حال کے حوالے سے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اتنے عرصے سے الجھے ہوئے معاملات اتنی جلدی تو نہیں سلجھ سکتے۔
ڈاکٹر حسنات کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں دو باتیں قابل غور ہیں۔ اوّل یہ کہ ایران نے لفظ “عارضی” استعمال کیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ بات چیت ٹوٹی نہیں ہے، پھر شروع ہو سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ ایران نے اسے فرقہ وار انہ مسئلہ بنانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کی حکمت عملی یہی ہو گی کہ اسے حقوق انسانی کا ہی مسئلہ بنایا جائے۔کیونکہ ساری دنیا ہی میں سعودی عرب کی اس کارروائی پر نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ اس لیے ایران اکیلے مذمت کرنے والے ملک کی حیثیت سے سامنے نہیں آئے گا اور سعودی رد عمل صرف اسی پر مرتکز نہیں ہو گا۔ اور آئندہ بات چیت کے دروازے کھلے رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ایران اور سعودی عرب کے درمیان ایک بڑا مسئلہ یمن کے حوالے سے بھی ہے اور اطلاعات یہ ہیں کہ یمن میں قیام امن کے حوالے سے اقوام متحدہ جو کوششیں کررہا ہے، اسی سلسلے میں سعودی عرب میں جلد ہی یمن کے تنازع کے تمام فریقوں کے درمیان بات چیت ہو گی اور اگر وہاں کچھ کامیابی ہوتی ہے تو آگے چل کر ان دونوں حریفوں کے درمیان معاملات اور آسان ہو جائیں گے۔
ایران پر بھی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں تو وہ کس طرح سعودی عرب یا کسی پر بھی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے لیے نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر فاروق حسنات کا کہنا تھا کہ اوّل تو ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایران میں بہ یک وقت اتنے لوگوں کو سزائے موت دی گئی ہو۔ جیسے سعودی عرب میں دی گئی ہے دوسرا جب سے ویانا میں ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے پر مذاکرات شروع ہوئے ہیں، ایران میں بقول ان کے حقوق انسانی کی ایسی خلاف ورزی کا کوئی بڑا واقعہ سننے میں نہیں آیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بات چیت میں یہ تعطل عارضی ہے اور فی الحال خطے کی صورت حال پر اس کا کوئی قابل ذکر اثر نہیں پڑے گا اور بات چیت بھی آخر کار شروع ہو جائے گی کیونکہ یہ دونوں کی ضرورت ہے۔
تاہم نیویارک سٹی یونیورسٹی سے وابستہ جہانگیر خٹک کا ، جو مشرق وسطی کے امور پر نظر رکھتے ہیں خیال ہے کہ بات چیت کے معطل ہونے کا اثر خطے کی صورت حال پر پڑےگا کیونکہ جب بھی ان دونوں ملکوں کے تعلقات میں کوئی تلخی آتی ہے تو وہ باہمی تعلقات تک محدود نہیں رہتی بلکہ جہاں جہاں ان کا حلقہ اثر ہوتا ہے وہاں تک پہنچتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر دونوں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو اس کا بنیادی سبب دونوں جانب پایا جانے والا یہ احساس تھا کہ اگر ان کے تعلقات کچھ بہتر ہوں تو خطے میں دوسری قوتوں کے لیے گنجائش کم ہو جائے گی۔ لیکن اس دوران ایران اور امریکہ کے درمیان جو با لواسطہ بات چیت جوہری معاہدے کے حوالے سے ہو رہی تھی، اس میں بقول ان کے توقع کے خلاف اچھی خاصی پیش رفت ہوئی اور معاہدہ تقریباً تیار ہے اور اس معاہدے میں رکاوٹ امریکہ یا ایران کی طرف سے نہیں ہے بلکہ روس اس کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور اسی لیے اس پر کام بھی روک دیا گیا ہے اور امریکہ اور ایران کے درمیان قربت یا معاہدے کو سعودی عرب اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔ اس معاہدے کے بارے میں اس کے تحفظات ہیں۔ اس لیے وہ اپنی الگ راہ بنانا چاہتا ہے اور یہاں تک بھی اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب جو کبھی امریکہ کا قریبی اتحادی سمجھا جاتا تھا اب چین سے یہ بات چیت کر رہا ہے کہ وہ چین کے ساتھ تیل کا جو کاروبار کرے گا وہ ڈالر کی بجائے اس کی کرنسی یوآن میں کرے گا.
ادھر ایران کی جانب سے بات چیت کو عارضی طور پر ہی صحیح لیکن ملتوی کرکے سعودی عرب کو اتنے بہت سارے لوگوں کو مذاکرات کے آئندہ دور سے پہلے بہ یک وقت سزائے موت دینے پر،جن میں شیعہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی، ناپسندیدگی کا پیغام دے دیا گیا ہے اور انہوں نے کہا کہ یہ صرف دو ملکوں کے تعلقات کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ خطے کی مجموعی سیاست بھی ہے۔ دونوں کے درمیان پرانی رقابت اور عدم اعتماد بھی ہے اور ان سب باتوں کو ملا کر جو ایک مجموعی صورت حال بنتی ہے اس کے منفی اثرات آپ کو ہر اس جگہ نظر آئیں گے جہاں دونوں میں سے کسی ایک کا بھی اثر ہےاور یوں جو معاملات بہتر ہوتے نظر آ رہے تھے وہ کھٹائی میں پڑتے نظر آتے ہیں۔
اگر بات چیت دوبارہ شروع بھی ہوتی ہے تو کیا وہ نتیجہ خیز ثابت ہو گی اور اس کے نتیجے میں کیا خطے میں استحکام آسکےگا؟ ان بڑے سوالوں کا واضح جواب ابھی کسی کے بھی پاس نہیں ہے۔