ایران نے کہا ہے کہ وہ اور عالمی طاقتیں 24 نومبر کی ڈیڈلائن سے قبل ایرانی جوہری پروگرام پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے عز م پر قائم ہیں۔
ایران کے نائب وزیرِ خارجہ عباس ارقچی کے بقول ایران سمجھتا ہے کہ جوہری تنازع کا حل صرف سفارت کاری ہی کے ذریعے ممکن ہے اور اسی لیے ان کی حکومت تنازع کے حل کی مخلصانہ کوششیں کر رہی ہے۔
ہفتے کو سرکاری خبر رساں ایجنسی 'اِرنا' کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ایرانی نائب وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ جوہری تنازع کا کوئی عارضی حل دستیاب نہیں اور اسی لیے اس وقت ان کی حکومت کی تمام تر توجہ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے پر مرکوز ہے۔
عباس ارقچی – جو جوہری امور پر ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار بھی ہیں – نے کہا کہ تنازع کا کوئی بھی فریق معاملات کو جنیوا میں طے پانے والے معاہدے سے قبل کی صورتِ حال پر نہیں لے جانا چاہتا کیوں کہ ایسا کرنا تمام پیش رفت کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ تنازع کے دونوں فریقوں کو اس حقیقت کا ادراک ہے اور اسی لیے انہیں امید ہے کہ ڈیڈلائن سے قبل کوئی معاہدہ طے پاجائے گا۔
عباس ارقچی کا مزید کہنا تھا کہ ایران معاہدے پر اتفاقِ رائے کے حصول کے لیے سنجیدہ کوششیں کررہا ہے اور اس ضمن میں دوسرے فریق کا رویہ بھی مثبت ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس جنیوا میں طے پانے والے معاہدے کے تحت ایران نے بعض جوہری سرگرمیاں عارضی طور پر معطل کردی تھیں جس کے عوض چھ عالمی طاقتوں (امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس، چین اور جرمنی) کے گروپ 'پی 5+1' نے اس پر عائد بعض پابندیاں اٹھا لی تھیں۔
فریقین کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور ویانا میں 18 نومبر کو ہوگا لیکن اس سے قبل مجوزہ سمجھوتے پر موجود اختلافات دور کرنے کی غرض سے ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف اور ان کے امریکی ہم منصب جان کیری اتوار کو عمان میں ملاقات کریں گے۔
ملاقات میں یورپی یونین کی نمائندہ کیتھرین ایشٹن بھی شریک ہوں گی۔
امریکی وزیرِ خارجہ خبردار کرچکے ہیں کہ اگر فریقین نے 24 نومبر کی ڈیڈ لائن سے قبل معاہدہ نہ کیا تو مذاکرات مزید پیچیدہ صورت اختیار کرجائیں گے۔