واشنگٹن —
ایران کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے سنی باغیوں کے مقابلے پر عراقی حکومت کی مدد کے لیے فوجی مشیر بغداد بھیجنے کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں سنجیدہ نہیں۔
صدر اوباما نے جمعرات کو پیش کش کی تھی کہ عرا ق کے شمالی علاقوں پر قبضہ کرنے والی سنی شدت پسند تنظیم 'الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام (داعش)' کے مقابلے کی حکمتِ عملی تیار کرنے میں بغداد حکومت کی مدد کے لیے وہ 300 فوجی ماہرین بغداد بھیجنے کو تیار ہیں۔
تاہم صدر اوباما نے عراق کی شیعہ حکومت کی جانب سے شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر امریکی طیاروں سے بمباری کرنے کی درخواست نظر انداز کردی تھی۔
'وہائٹ ہاؤس' میں پالیسی بیان دیتے ہوئے صدر اوباما نے عراقی وزیرِاعظم نوری المالکی پر زور دیا تھا کہ وہ ملک میں جاری فرقہ وارانہ تقسیم دور کرنے کےلیے اقدامات کریں جس نے ملک کی سنی اقلیت کو شدت پسندی کی جانب دھکیل دیا ہے۔
صدر اوباما کے اس بیان پر ہفتے کو ایران کے نائب وزیرِ خارجہ نے تنقید کرتےہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عراق اور خطے میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں سنجیدہ نہیں۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'اِرنا' کے مطابق نائب وزیرِ خارجہ برائے عرب اور افریقی امور حسین عامر عبدالحیان نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے دہشت گردی اور 'داعش' سے مقابلہ کرنے میں تاخیر نے عراق میں امریکی عزائم پر شکوک کو جنم دیا ہے۔
عراق کے ایک اور اعلیٰ عہدیدار اور صدر حسن روحانی کے مشیر حمید ابوطالبی نے بھی صدر اوباما کی عراق سے متعلق حکمتِ عملی پر تنقید کی ہے۔
اپنے 'ٹوئٹر' اکاؤنٹ پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں ایرانی عہدیدار نے کہا ہے کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں دہری اور باہم متصادم پالیسیاں جاری نہیں رکھ سکتا۔
حمید ابو طالبی کے بقول امریکہ ایک جانب تو شام میں جنگ کا حامی ہے اور دوسری جانب عراق میں امن کی حمایت کرتے ہوئے انہیں گروہوں کی مخالفت کر رہا ہے جنہیں وہ شام میں مدد دیتا آیا ہے۔
دریں اثنا ایرانی صدر کے چیف آف اسٹاف محمد نہاوندیان نے کہا ہے کہ ان کا ملک عراق میں پیش آنے والے واقعات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے اور اگر عراق نے اپنے داخلی مسائل کے حل کے لیے ایران سے مداخلت کی درخواست کی تو ان کی حکومت اس کا "مناسب" جواب دے گی۔
'اِرنا' کے مطابق ایرانی صدر کے مشیرِ اعلیٰ کا کہنا تھا کہ انہیں عراق میں موجود شیعہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کے بارے میں بطورِ خاص تشویش ہے۔
اس سے قبل رواں ہفتے ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی خبردار کیا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو ایرانی عراق میں موجود مذہبی مقامات کے تحفظ کےلیے سرحد پار کرنے پر تیار ہیں۔
اپنے بیان میں محمد نہاوندیان نے مزید کہا ہے کہ اگر شام میں جنگ روکنے کےلیے موثر اقدامات کیے جاتے تو تشدد کی اس لہر کو عراق تک پہنچنے سے روکا جاسکتا تھا۔
صدر اوباما نے جمعرات کو پیش کش کی تھی کہ عرا ق کے شمالی علاقوں پر قبضہ کرنے والی سنی شدت پسند تنظیم 'الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام (داعش)' کے مقابلے کی حکمتِ عملی تیار کرنے میں بغداد حکومت کی مدد کے لیے وہ 300 فوجی ماہرین بغداد بھیجنے کو تیار ہیں۔
تاہم صدر اوباما نے عراق کی شیعہ حکومت کی جانب سے شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر امریکی طیاروں سے بمباری کرنے کی درخواست نظر انداز کردی تھی۔
'وہائٹ ہاؤس' میں پالیسی بیان دیتے ہوئے صدر اوباما نے عراقی وزیرِاعظم نوری المالکی پر زور دیا تھا کہ وہ ملک میں جاری فرقہ وارانہ تقسیم دور کرنے کےلیے اقدامات کریں جس نے ملک کی سنی اقلیت کو شدت پسندی کی جانب دھکیل دیا ہے۔
صدر اوباما کے اس بیان پر ہفتے کو ایران کے نائب وزیرِ خارجہ نے تنقید کرتےہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عراق اور خطے میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں سنجیدہ نہیں۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'اِرنا' کے مطابق نائب وزیرِ خارجہ برائے عرب اور افریقی امور حسین عامر عبدالحیان نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے دہشت گردی اور 'داعش' سے مقابلہ کرنے میں تاخیر نے عراق میں امریکی عزائم پر شکوک کو جنم دیا ہے۔
عراق کے ایک اور اعلیٰ عہدیدار اور صدر حسن روحانی کے مشیر حمید ابوطالبی نے بھی صدر اوباما کی عراق سے متعلق حکمتِ عملی پر تنقید کی ہے۔
اپنے 'ٹوئٹر' اکاؤنٹ پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں ایرانی عہدیدار نے کہا ہے کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں دہری اور باہم متصادم پالیسیاں جاری نہیں رکھ سکتا۔
حمید ابو طالبی کے بقول امریکہ ایک جانب تو شام میں جنگ کا حامی ہے اور دوسری جانب عراق میں امن کی حمایت کرتے ہوئے انہیں گروہوں کی مخالفت کر رہا ہے جنہیں وہ شام میں مدد دیتا آیا ہے۔
دریں اثنا ایرانی صدر کے چیف آف اسٹاف محمد نہاوندیان نے کہا ہے کہ ان کا ملک عراق میں پیش آنے والے واقعات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے اور اگر عراق نے اپنے داخلی مسائل کے حل کے لیے ایران سے مداخلت کی درخواست کی تو ان کی حکومت اس کا "مناسب" جواب دے گی۔
'اِرنا' کے مطابق ایرانی صدر کے مشیرِ اعلیٰ کا کہنا تھا کہ انہیں عراق میں موجود شیعہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کے بارے میں بطورِ خاص تشویش ہے۔
اس سے قبل رواں ہفتے ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی خبردار کیا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو ایرانی عراق میں موجود مذہبی مقامات کے تحفظ کےلیے سرحد پار کرنے پر تیار ہیں۔
اپنے بیان میں محمد نہاوندیان نے مزید کہا ہے کہ اگر شام میں جنگ روکنے کےلیے موثر اقدامات کیے جاتے تو تشدد کی اس لہر کو عراق تک پہنچنے سے روکا جاسکتا تھا۔