ایران کی پاسدارانِ انقلاب کے ایک کمانڈر نے بیان میں کہا ہے کہ اگر امریکہ اور اس کے حلیف ممالک نے غزہ میں ’جرائم‘ بند نہ کیے تو وہ بحیرۂ روم کو سمندری آمد و رفت کے لیے بند کر سکتے ہیں۔
ایران اسرائیل کے مقابلے میں حماس کی حمایت کرتا ہے اور غزہ میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کے لیے امریکہ کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔
ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے بریگیڈیئر جنرل رضا ناقدی نے ایک بیان میں کہا کہ وہ بحیرۂ روم (آبنائے جبل الطارق) جبرالٹر وغیرہ کی سمندری گزرگاہوں کے بند کرنے کا انتظار کریں۔
امریکہ نے جمعے کو ایران پر الزام لگایا تھا کہ وہ بحیرۂ احمر میں تجارتی کشتیوں پر ہونے والے حملوں میں ملوث ہے۔
ایران جغرافیائی اعتبار سے بحیرۂ روم تک رسائی نہیں رکھتا اور یہ واضح نہیں کہ پاسدارانِ انقلاب بحیرۂ روم کی آبی گزرگاہوں کو کیسے بند کر سکے گی۔
بحیرۂ روم کے کنارے واقع ممالک میں سے لبنان کی مسلح ملیشیا حزب اللہ اور شام میں بعض عسکریت پسند گروپ ایران کے اتحادی ہیں۔ البتہ یہ دونوں ممالک بحیرۂ روم کے دوسرے کنارے پر واقع آبنائے جبل الطارق سے بہت دور ہیں۔
یمن میں حوثی باغیوں نے گزشتہ ماہ بحیرۂ احمر میں تجارتی بحری جہازقں پر حملے شروع کیے ہیں۔
حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ وہ یہ حملے غزہ میں جاری اسرائیل کی کارروائی کے ردِ عمل میں کر رہے ہیں۔
دوسری جانب پینٹاگان کے ترجمان ریٹ رائیڈر نے ایک بیان میں بتایا کہ حوثی باغیوں کی کارروائیوں کے ردِ عمل میں امریکہ نے سمندری گزرگاہوں کو محفوظ بنانے کے لیے جو اتحاد بنایا ہے، اس میں ممالک کی تعداد 20 ہوچکی ہے۔
رائیڈر نے اپنے بیان میں کہا کہ حوثی باغی دنیا بھر کی قوموں کی ترقی پر وار کر رہے ہیں۔ انہوں نے حوثیوں کو بحیرۂ احمر میں قزاقوں سے تشبیہ دی۔
انہوں نے بتایا کہ جب تک حوثی اپنی کارروائیاں بند نہیں کرتے یہ اتحاد بحیرۂ احمر سے عدن تک سمندروں پر گشت جاری رکھے گا۔
واضح رہے کہ سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر زمین، فضا اور بحری راستے سے ایک ساتھ حملے کیے تھے۔ اسرائیلی حکومت کے مطابق غزہ سے کیے گئے حماس کے اس حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں عام شہری بھی شامل تھے۔
حماس کے اس حملے کے جواب میں اسرائیل نے اعلان جنگ کرتے ہوئے غزہ کا محاصرہ کر لیا اور اس وقت سے وہ فضا سے بمباری اور زمینی کارروائی میں مصروف ہے۔ اس دوران حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق ل بھگ 20 ہزار فلسطینیوں کی اموات ہوئی ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔
اس بڑے پیمانے پر ہونے والی اموات کی وجہ سے دنیا بھر سے ردعمل سامنے آیا ہے۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں اداروں ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ سے لیا گیا ہے۔