امریکہ نے الزام عائد کیا ہے کہ بحیرۂ احمر (ریڈ سی) میں نجی بحری جہازوں پر حوثیوں کے حملوں میں ایران بھی ملوث ہے۔
وائٹ ہاؤس نے جمعے کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران نے یمن کے حوثی باغیوں کو نہ صرف ڈرونز اور میزائل فراہم کیے ہیں بلکہ وہ ان کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ بھی کرتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق حوثی سمندر میں نگرانی کے لیے ایران کے فراہم کردہ نظام پر انحصار کرتے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق امریکی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایدرینی واٹسن نے کہا کہ "ہم جانتے ہیں کہ ایران بحیرۂ احمر میں کمرشل جہازوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی میں ملوث ہے۔"
واضح رہے کہ یمن کے ایک حصے پر قابض حوثی باغیوں نے گزشتہ ماہ اسرائیل سے تعلق کے شبہے میں بحیرۂ احمر میں ایک نجی بحری جہاز کو قبضے میں لے کر عملے کو یرغمال بنا لیا تھا۔
حوثی نومبر سے لے کر اب تک بحیرۂ احمر میں بیلسٹک میزائلوں سے کئی بحری جہازوں کو نشانہ بنا چکے ہیں۔
حوثیوں کا کہنا ہے کہ ان کے حملے فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ہیں اور یہ حملے غزہ میں جنگ بندی تک جاری رہیں گے۔
حوثیوں کے حملوں کے بعد متعدد شپنگ کمپنیوں نے بحیرۂ احمر کے راستے تجارت معطل کر دی ہے جس کا اثر عالمی تجارت پر پڑ رہا ہے۔
یاد رہے کہ حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملے کے بعد غزہ میں اسرائیل کی زمینی و فضائی کارروائی میں غزہ کے صحت حکام کے مطابق 20 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ حماس کے حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ جنگجو لگ بھگ 240 افراد کو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے تھے جن میں سے کئی اب بھی حماس کی قید میں ہیں۔
غزہ جنگ کے شروع ہونے کے بعد لبنان کی ایران نواز تنظیم حزب اللہ اور یمن کے حوثی باغی اسرائیل پر راکٹ اور میزائلوں سے حملے کر چکے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکہ نے ایران کے 'کے اے ایس 04' ڈرونز اور حوثیوں کی جانب سے پائلٹ کے بغیر جہازوں کا تجزیہ کیا ہے اور دونوں میں مماثلت پائی ہے جب کہ ایران اور حوثیوں کے میزائل بھی تقریباً ایک جیسے ہی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے پیش کیے جانے والے جائزے کے باوجود بعض امریکی اور اس کے اتحادیوں کے درمیان خدشات موجود ہیں کہ آیا حوثی ایران کی ایما پر یہ حملے کر رہے ہیں۔
ایک امریکی اتحادی ملک کے سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ خطے میں ایران کے حامیوں میں سے حوثیوں کے تہران کے ساتھ کمزور ترین تعلقات ہیں اور یہ دیکھنا ہو گا کہ بحیرۂ احمر میں جہازوں کو نشانہ بنانے میں ایران یا حوثیوں کو کیا فائدہ ہو گا۔
واضح رہے کہ بائیڈن حکومت نے ابتدائی طور پر حوثیوں کے حملوں پر دبے لفظوں میں ردِ عمل کا اظہار کیا تھا۔ تاہم بحیرۂ احمر میں بحری جہازوں کی سیکیورٹی کے لیے 18 دسمبر کو امریکہ نے دس ملکوں پر مشتمل نیول ٹاسک فورس کے قیام کا اعلان کیا۔
امریکی تھنک ٹینک واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی سے وابستہ مائیکل نائٹ نے اپنے حالیہ تحقیقی مقالے میں کہا کہ حوثی ایران کے حکمرانوں کے تابعے ہیں۔ امریکہ کو یہ سوچنا چاہیے کہ حوثی شمالی کوریا کی طرح ہیں جو جارح اور مسلح ہیں، یہی نہیں وہ امریکہ کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور خطے میں اہم جگہ پر بیٹھے ہیں۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔
فورم