|
اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے نے جمعہ کو کہا کہ ایران اپنی دو اہم جوہری تنصیبات فردو اور نتانز میں ہزاروں جدید سینٹری فیوجز کے ساتھ یورینیم کی افزودگی شروع کر دے گا، جس سے تہران کے پروگرام پر کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گاجو اس وقت ہتھیاروں کی سطح کے قریب افزودگی کررہا ہے۔
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے نوٹس میں صرف اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ایران نئے سینٹری فیوجز کے ساتھ یورینیم کو 5 فیصد خالصتاً افزودہ کر رہا ہے، جو کہ اس وقت کے 60 فیصد کے مقابلے میں بہت کم ہے _
ممکنہ طور پر یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ اب بھی مغرب اور نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آنے والی انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کرنے کا خواہش مندہے۔
2018 میں سابق صدر ٹرمپ کے دور صدارت میں امریکہ اس معاہدے سے الگ ہوگیا تھا۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے آئی اے ای اے کی رپورٹ پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
تہران نے اپنے نیوکلیر پروگرام کو اس وقت تیزی سے آگے بڑھانے کی دھمکی دی تھی جب IAEA کے بورڈ آف گورنرز نے اپنے نومبر میں ہونے والے ایک اجلاس میں ایجنسی کے ساتھ مکمل تعاون کرنے میں ناکامی پر ایران کی مذمت کی تھی۔
ایک بیان میں، IAEA نے ان منصوبوں کا خاکہ پیش کیا جن کے بارے میں ایران نے اسے آگاہ کیاہے، ان میں اس کے جدید ترین IR-2M، IR-4 اور IR-6 سینٹری فیوجز کے تقریباً 45 ’کاسکیڈز‘ میں یورینیم کی افزودگی شامل ہے۔
Cascades سینٹری فیوجز کا ایک گروپ ہے جو یورینیم کو زیادہ تیزی سے افزودہ کرتا ہے۔ ان جدید سینٹری فیوجز میں سے ہر ایک ایران کے ان بنیادی IR-1 سینٹری فیوجز سے زیادہ تیزی سے یورینیم کو افزودہ کرتا ہے جو ایک طویل عرصے سے تہران کے جوہری پروگرام کا قابل بھروسہ حصہ رہے ہیں۔
IAEA نے یہ نہیں بتایا کہ ہر کاسکیڈ میں کتنے سینٹری فیوجز ہوںگے، تاہم ایران ماضی میں تقریباً 160 سینٹری فیوجز کو ایک واحد کاسکیڈ میں ڈال چکا ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ایران نے ابھی تک سینٹری فیوجز میں یورینیم افزودہ کرنا شروع کر دیا ہے یا نہیں۔ تہران اپنے منصوبوں کے بارے میں ابہا م سے کام لیتا رہا ہے۔
لیکن 5 فیصد سے افزودگی شروع کرنا تہران کیلئے مغرب کے ساتھ بات چیت میں فائدہ مند ثابت ہوگا اور ایک ظرح سے یہ دباؤ ڈالنے کا حربہ بھی ہے۔ ہتھیاروں کے درجے کی افزودگی کی سطح تقریباً 90 فیصد ہے۔
2018 میں معاہدے سے امریکہ کی یکطرفہ دستبرداری کےنتیجے میں عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے 2015 کے جوہری معاہدے کے خاتمے کے بعد سے، تہران ہتھیاروں کے درجے کی سطح سے بہت نزدیک کی جوہری افزودگی کر رہا ہے۔ لیکن امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں اور دیگر کا اندازہ ہے کہ ایران نے ابھی تک جوہری ہتھیاروں کا پروگرام شروع نہیں کیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو دیے گئے ایک بیان میں کہا کہ اسے "ایران کے اس اعلان پر گہری تشویش ہے کہ وہ آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کے برعکس مسلسل اضافے کا راستہ منتخب کر رہا ہے۔"
اس نے مزید کہا، "ایران کی جانب سے 60 فیصد تک افزودہ یورینیم کی مسلسل پیداوار اور اسے جمع کرنے کا کوئی قابل اعتبار سویلین جواز نہیں ہے۔"
ایران نے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کنندہ کے طور پر، آئی اے ای اے کو اپنے جوہری مقامات کا دورہ کرنے کی اجازت دینے کا وعدہ کیا ہے تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ اس کا پروگرام پرامن ہے۔
اہران نے 2015 کے جوہری معاہدے کے ایک حصے کے طور پر IAEA کی جانب سے اضافی نگرانی پر بھی اتفاق کیا تھا، جس نےایران کے پروگرام کو سختی سے محدود کرنے کے بدلے میں اس پر سے پابندیاں ہٹا دی تھیں۔
تاہم، برسوں سے ایران نے ان مقامات تک انسپکٹروں کی رسائی کو محدود کر رکھا ہے، جبکہ ان دیگر سائٹس کے بارے میں بھی سوالات کا مکمل جواب نہیں دیا ہےجہاں ماضی میں معاہدے کے خاتمے کے بعد جوہری مواد پایا گیا تھا۔
حالیہ مہینوں میں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اور صدر مسعود پیزشکیان سمیت ایرانی حکام نے مغرب کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کا عندیہ دیاہے۔ لیکن ایران نے اسرائیل حماس جنگ کے دوران اسرائیل پر دو حملے بھی کیے ہیں۔
ایک ایرانی سفارت کار کاظم غریب آبادی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں بتایا ہےکہ انہوں نے یورپی یونین کے ایک سفارت کار اینرک مورا سے ملاقات کی، جس میں انہوں نے یورپ کے "غیر ذمہ دارانہ رویے" پر تنقید کی۔
دوسری طرف مورا نے بھی X پر کاظم غریب آبادی اور ایک اور ایرانی سفارت کار کے ساتھ "صاف گوئی پر مبنی بات چیت" کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہےکہ ان مذاکرات میں روس کے لیے ایران کی فوجی مدد پر بات ہوئی جسے روکنا ہے، ہر طرف سے مزید کشیدگی سے بچنے کے لیے اہم جوہری مسئلے پر جس کے سفارتی حل کی ضرورت ہے، اسی طرح علاقائی کشیدگی اور انسانی حقوق" پر بات ہوئی ہے۔
یہ رپورٹ ایسوسی ایٹ پریس کی اطلاعات پر مبنی ہے۔
فورم