امریکہ نے اس ہفتے دوسری بار ایران کو امریکی فوجی بحری ڈرونز واپس کر نے پر مجبور کیا جنہیں تہران نے سمندر میں ضبط کرنے کی کوشش کی تھی۔
ایران بحیرہ احمر میں یمن کے ساحل کے قریب جہاں وہ حوثی تحریک کی پشت پناہی کرتا ہے اپنی بحری موجودگی برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
خلیج میں قبل ازیں اسی نوعیت کے ایک واقعے کے بعد یہ واقعہ امریکہ اور ایران کے درمیان فوجی کشیدگی کی تازہ ترین یاد دہانی ہے۔ یہ واقعات گزشتہ ہفتے امریکی فوجیوں اور شام میں ایران کے حمایت یافتہ گروپوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلوں کے بعد پیش آئے ہیں۔
ایران کے سرکاری ٹی وی نے جمعے کو اوّل وقت اعتراف کیا کہ ایرانی بحریہ نے بحیرہ احمر میں امریکہ کے دو بحری ڈرونز چھوڑ دیے ہیں۔ لیکن کوئی ثبوت فراہم کیے بغیر الزام لگایا کہ ایسے امریکی ڈرونز وغیرہ جو کسی پائلٹ کے بغیر خود کار طور پر چلتے ہیں۔ بحری سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
ایران کے سرکاری ٹی وی نے کہا کہ ایرانی بحریہ کے فریگیٹ جماران نے جمعرات کے روز امریکی بیڑے کو وارننگ جاری کرنے کے بعد کسی ممکنہ حادثے کو روکنے کے لیے دو ڈرونز کو پکڑ لیا تھا اور جب بین الاقوامی جہاز رانی کے راستے محفوظ ہو گئے تو دونوں ڈرونز کو محفوظ علاقے میں چھوڑ دیا گیا۔
امریکی بحریہ نے ایک بیان میں اس موقف کو یہ کہتے ہوئے چیلنج کیا کہ ڈرونز نزدیک ترین میری ٹائم ٹریفک لین سے کم از کم چار نوٹیکل میل کی دوری پر پٹرول کے لئے مقررہ علاقے میں تھے۔
امریکی بحریہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ ڈرونز نیول ٹریفک کے لئے کوئی خطرہ نہ تھے۔ اور جنوبی بحیرہ احمر کے عمومی علاقے میں دوسو سے زیادہ دنوں سے موجود تھے۔ اور اس دوران کوئی واقعہ بھی نہیں ہوا۔
ایک امریکی دفاعی عہدیدار نے اس شرط پر بات کرتے ہوئے کہ اسکا نام ظاہر نہ کیا جائے بتایا کہ ایرانیوں نے جمعرات کے روز خفیہ طور پر ان ڈرونز کو پکڑنا چاہا تھا۔ اور ان بحری ڈرونز کو پانی سے نکال کر ٹارپ سے ڈھک کر چھپانا چاہتے تھے۔
ایک اور امریکی عہدیدار نے بتایا کہ ایران نے جمعے کے روز امریکہ کے جنگی جہازوں کو جو موقع پر پہنچ گئے تھے ڈرونز واپس لوٹانے سے قبل اس بات سے انکار کیا تھا کہ امریکہ کی کوئی املاک اس کے قبضے میں ہے۔
ایران اور اس کی حمایت یافتہ فورسز کا حالیہ برسوں میں یمن، شام اور عراق میں ڈرونز پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایران یوکرین میں استعمال کے لئے روس کو بھی ڈرونز سپلائی کر رہا ہے۔ تاہم ایران اس کی تردید کرتا ہے۔